تحریر : طارق قریشی (مسافر)
عنوان دیکھ کر میرے قارئین کو فوری خیال یہ آئے گا کہ اب میں تجزیہ نگاری کے ساتھ ساتھ علم نجوم اور ستاروں کے علم کا بھی ماہر بننے چلا ہوں۔ ایسا کچھ بھی نہیں نہ میں علم نجوم کا ماہر ہونے کا دعوی دار ہوں نہ ہی اپنا شمار میڈیا خاص طور پر سوشل میڈیا پر موجود علم نجوم کےان گنت ماہرین میں کرنا چاہتا ہوں ہمارے ان ماہرین کی سو میں سے ایک پیش گوئی جب پوری ہو جاتی ہے تو اس کو لے کر یہ ماہرین بار بار اسی کا ذکر کرتے ہوئے اپنی دکان کھولے رکھتے ہیں اور یوں گلشن کا کاروبار چلتا رہتا ہے۔یہ کالم نگار تو سیاست اور تاریخ کا طالب علم ہے نہ ماہر ہے اور نہ مہارت کا دعوے دار ۔ اس طالب علم کو یہ آگاہی ہے کہ سیاست اور تاریخ کے اس وسیع سمندر میں اس کی حیثیت ایک ذرہ ناچیز کی ہے۔ بس اتنا دعویٰ ضرور ہے کہ زمینی حقائق اور ملک عزیز کی سیاسی تاریخ کی روشنی میں اندازہ لگانے کی جتنی صلاحیت اللہ رب کریم نے عطا کی ہے اُسے ایمانداری اور بلا تعصب آپ کے سامنے پیش کر دیتا ہوں۔ میری تحریر سے اتفاق یا اختلاف کرنا ہر شخص کا بنیادی حق ہے بلکہ قارئین کی تنقید مجھے اصلاح میں بہت مدد گار ثابت ہوتی ہے۔
اس ابتدائیے کے بعد آتے ہیں موضوع کی طرف سو موضوع کا پہلا حصہ کہ کیا ہو رہا ہے۔ دیکھا جائے تو اس وقت ملک عزیز میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی اس سے پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ حکومتیں بننے اور ختم ہونے کا کھیل تو یہاں گذشتہ سات دہائیوں سے جاری ہے کبھی ایوان کے اندر راتوں رات اراکین کی وفاداری تبدیل کرا کے پورا سیاسی ریوڑ ہی اصطبل تبدیل کر دیتا تھا تو کبھی سارے اراکین کو مسترد کرتے ہوئے قائد ایوان کو غیر ممالک سے درآمد کر لیا جاتا تھا۔ یہاں تو یہ بھی ہوا کہ ایک شخص جو امریکہ میں سفیر کے عہدے پر کام کر رہا تھا۔ قانون کے مطابق سیکرٹری خارجہ اور وزیر خارجہ کا ماتحت تھا راتوں رات بلا کر وزیراعظم بنا دیا گیا ۔ ایک رات پہلے وہ جن کا ماتحت تھا اب وہ تمام اس کے ماتحت بن گئے۔ یہاں تو وہ بھی وزیراعظم بن گئے کہ جن کو وزیراعظم بننے کے بعد شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنا کر باقاعدہ پاکستان کا شہری بنایا گیا۔ سو اس تماشہ گاہ میں تو نئے سے نئے تماشے لگتے رہے ہیں۔ آج بھی تماشہ لگانے والوں میں کمی واقع ہوئی ہے اورنہ تماشہ بننے والوں میں ،رہ گئے تماش بین توبحیثیت تماش بین انہیں تو تماشے سے غرض ہوتی ہے۔ یہ ساری باتیں اپنی جگہ مگر اسی بار جو تماشا لگا ہے پہلی بار ہے کہ اس تماشے کا نہ تماشہ لگانے والوں کو اندازہ تھا نہ تماشہ بننے والوں کو اس تماشے کی سنگینی کا اندازہ تھا، رہ گئے تماش بین تو وہ ابھی اس تماشے کے اثرات میں ہی گم نظر آتے ہیں۔
پاکستان میں حکومتوں کے بنانے اور بگاڑنے کا کھیل پرانا ہے جس کی حکومت بن جاتی ہے وہ ا سٹیبلشمنٹ کے گن گا رہا ہوتا ہے تو جو اقتدار سے محروم ہو تا ہے وہ اسٹیبلشمنٹ کو ہی اصل قصور وار مانتے ہوئے اپنی کسی غلطی کو ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتا گذشتہ چار دہائیوں میں ملک میں صرف دو سیاسی حکمران ایسے آئے کہ جو یہ مانتے تھے کہ ہمارا اقتدار اسٹیبلشمنٹ کے مرہون منت ہی تھا اس لیے اقتدار کے خاتمے پر دونوں صاحبان محمد خان جونیجو اور ظفر اللہ جمالی نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بد زبانی کی نہ دشنام طرازنی اور نہ ہی ان کے بارے غیر اخلاقی زبان استعمال کی۔ ان دونوں صاحبان کے علاوہ بے نظیر بھٹو ہوں نواز شریف یا عمران خان سب اقتدار میں اسٹیبلشمنٹ سے باقاعدہ معاہدوں کے ذریعے آئے مگر جب محروم ہوئے تو اپنی غلطی بارے ماننا تو درکنار ذکر کرنا بھی محال تھا اور تو اور پارٹی بنانے کے عمل سے لے کر اقتدار کی راہداریوں میں مزے کرنے والا چوہدری خاندان بھی اپنی ناکامی جنرل پاشا کے کھاتے میں ڈالتے رہے۔ اس بات کا ذکر نہیں کرتے کہ جنرل پاشا اور اس کے سابقین خاص طور پر جنرل احتشام ضمیر نے ان کی حکومت بنانے کے لیے سیاستدانوں سے ’’ضمیر ‘‘کے مطابق فیصلے کرائے تھے۔ اس بار سب سے انہونی تو یہ ہوئی کہ اقتدار میں موجود وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گئی حالانکہ ماضی میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے عمران کی نسبت سیاسی طور پر کمزور ہونے کے باوجود اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے بر خلاف اپنی سیاسی سوجھ بوجھ سے تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنا دیا تھا۔ جس کےنتیجے میں اسٹیبلشمنٹ کو صدر اسحق خان کے ذریعے محترمہ کی حکومت ختم کرنا پڑ گئی۔ نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ ساتھ آصف علی زرداری کی حکومت کو بھی اسٹیبلشمنٹ نے مصنوعی طریقے سے ختم کرنے کی سازشوں کو جاری رکھا مگر یہ تمام افراد سیاست کے میدان میں اس حقیقت سے بخوبی آگاہ تھے کہ آج حکومت ختم کرنے والے ہی کل حکومت بنانے میں ان کے مدد گار بھی ہونگے۔ اس لیے نواز شریف محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری کی طرف سے اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر زبانی گولہ باری ہی ہوتی تھی یہ گولہ باری بھی اسٹیبلشمنٹ پر بحیثیت ادارہ کم بلکہ ذمہ دارچند کرداروں پر ان کا نشانہ زیادہ ہوتا تھا کیونکہ کچھ عرصے بعد سٹیبلشمنٹ کے کردار تبدیل ہو جاتے تھے ۔ نئے آنے والے نئے سرے سے معاملات کا آغاز کر لیتے تھے۔ (جاری ہے)