بہاولپور (کرائم سیل)دو سال قبل تھانہ عباس نگر کی حدود موضع گود پورہ میں دو جرائم پیشہ بھارا گروپس کی آپس کی لڑائی میں قتل ہونے والے شہباز عرف شبو کے ورثا اور گواہان کو بہاولپور پولیس تحفظ دینے میں یکسر ناکام نظر آ رہی ہے۔ سیاسی سرپرستی مختلف جرائم پیشہ گروپوں کی جانب سے دھمکیوں اور پیسے لے کر صلح نہ کرنے پر ملزمان کے دونوں گروپ مدعی کو مارنے پیٹنے اور ان پر پولیس کی مدد سے جھوٹے مقدمات درج کروا کر ڈرا دھمکا کر صلح کرنا چاہتے ہیں جبکہ بہاولپور پولیس کے تھانہ صدر اور تھانہ عباس نگر کی پولیس مظلوم کو ظالم اور ظالم کو مظلوم ثابت کرنے کے درپے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈی پی او بہاولپور کو بھی مدعیوں کی جانب سے انصاف اور تحفظ کے لیے دی جانے والی درخواست پر بھی کارروائی آگے نہیں بڑھ پا رہی کیونکہ دونوں تھانوں کی پولیس اپنے کمانڈر سے حقائق مخفی رکھے ہوئے ہیں۔ بدر شیر کے رہائشی مقتول کے بھائی منیر احمد نے اپنے والد کے ہمراہ روزنامہ قوم سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ میرے بھائی کے قتل کے بعد دونوں گروپوں نے ہمارے ساتھ صلح کے لیے بہت کوششیں کیں، سیاسی پریشر بھی ڈالا لیکن جب ہم نے صلح کے لیے حامی نہیں بھری اور اب کیس شہادتوں پر ہے تو عدالتوں میں شہادتوں سے بچنے کے لیے ملزمان ہم پر دباؤ ڈال رہے ہیں، ڈرا رہے ہیں، دھمکا رہے ہیں، اس کے لیے انہوں نے علاقے کے دیگر جرائم پیشہ گروپوں سے رابطے کر لیے ہیں۔ دو اگست کو میں اپنی بیوی اور کمسن بچی کے ساتھ اپنے سسرال سے واپس آ رہا تھا تو پاولی گینگ کے سرکردہ افراد نے مجھے خلیل والے بھٹے کے قریب روکا، میری بیوی اور بیٹی کے سامنے مجھے مارا پیٹا اور مجھے اغوا کر کے قریبی بستی میں اپنے گھر لے گئے جس کی میں نے اطلاع پولیس کو دی۔ صدر کی پولیس نے مقدمہ نمبر 1031/25 بجرم 341/355/506/292 ت پ درج رجسٹر کیا، پولیس نے اغوا کی دفعات نہ لگائیں۔ قیوم اے ایس آئی اب مجھے کہتا ہے کہ اسی علاقے کے پانچ افراد کا بیان حلفی لا کر دو کہ وہ تمہیں اٹھا کر گھر لے گئے تھے۔ اب یہ بتائیں جرائم پیشہ اور وارداتی افراد کے خلاف کون گواہی دے۔ بھارا گروپوں کے خلاف کیونکہ سابقہ ڈی پی او سرفراز نے ہمیں دھمکیاں دینے کی ویڈیو وائرل ہونے پر بہترین کارروائی کرتے ہوئے ان کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا اس لیے وہ خود تو فرنٹ پہ نہیں آتے، اس پاولی گینگ کے ذریعے پولیس افسران کے ساتھ میل ملاپ کر کے تھانہ عباس نگر میں میرے ماموں جو کہ اس مقدمے کے گواہ ہیں کے خلاف ایک بے بنیاد مقدمہ نمبر 495/25 چھ اگست کو درج کر کے میرے ماموں کو جیل بھجوا دیا جس میں وہ ضمانتوں پر رہا ہو کر آئے ہیں۔ منیر احمد اور اس کے والد نے روتے ہوئے ڈی پی او بہاولپور سے مطالبہ کیا کہ ایک تو ملزمان نے مجھ پر تشدد کیا، مجھے اغوا کیا، پولیس نے نہ دفعات درست لگائی اور نہ ہی آج تک کسی ملزم کو گرفتار کیا بلکہ انہیں عبوری ضمانتیں کروانے کا موقع دیا۔ میرے ماموں کو جھوٹے مقدمے میں گرفتار کر کے چالان کیا جو کہ صاف ظاہر ہے کہ پولیس اور ان جرائم پیشہ افراد کے گٹھ جوڑ کا واضح ثبوت ہے کیونکہ اس سے پہلے بھی بہاولپور کے چند نام نہاد اسلحہ ڈیلر بھی ان جرائم پیشہ افراد کے قتل کے کیس میں پیروی کرتے رہے تھے اور اب بھی چند سیاسی افراد نے ہمارے پیچھے لگا دیا ہے۔ اگر پولیس ہمارا تحفظ نہیں کرے گی تو ہمیں انصاف کیسے ملے گا۔ ایڈیشنل آئی جی جنوبی پنجاب، آر پی او بہاولپور اور ڈی پی او بہاولپور سے ہماری اپیل ہے کہ ہمیں تحفظ فراہم کیا جائے اور میرے ماموں کے خلاف جھوٹا مقدمہ خارج کیا جائے اور میرے مقدمے میں صحیح دفعات لگا کر ملزمان کو قرار واقعی سزا دلائی جائے۔
