آج کی تاریخ

گستاخ (قسط اول)

سرائیکی صوبہ تحریک اور سید یوسف رضا گیلانی (آخری قسط)

تحریر : میاں غفار (کار جہاں)

جنرل ضیاء الحق کے بعد پاکستان کے طاقت ور ترین حکمران جنرل پرویز مشرف تھے۔ انہوں نے نظام کی تبدیلی کے لیے بہت سے اقدامات کئے اور ریٹائرڈ (جنرل) تنویر نقوی کو پاکستان کے انتظامی نظام میں تبدیلی کرنے کا ٹاسک دیا۔ جنرل نقوی نے بڑی عرق ریزی کے بعد ضلعی نظام متعارف کرایا جو کہ بلا شبہ ایک بہترین نظام تھا مگر سیاسی بنیادوں پر بننے والے ضلعی ناظمین نے جہاں بہت نمایاں کام کئے وہاں بہت سے اضلاع مزید تباہی کا شکار بھی ہوئے۔ جن میں جنوبی پنجاب کا ضلع مظفر گڑھ سر فہرست تھا۔ ضلعی ناظمین کے پاس بے پناہ اختیارات تھے۔ جن دنوں جنرل (ر) نقوی ضلعی نظام حکومت کی بنیادیں رکھ رہے تھے انہیں مشورہ دیا گیا کہ ضلعی نظام کی بجائے ڈویژنل نظام لائیں اور ڈویژنل سسٹم کو مضبوط کریں تو صرف دس سال میں پاکستان کے کئی صوبے بنائے جا سکتے ہیں ۔انہیں ایک رپورٹ پیش کی گئی جس میں بتایا گیا کہ اگر قدرتی تقسیم کو دیکھا جائے تو سندھ کے تین صوبے بن سکتے ہیں۔ کراچی، حیدر آباد، ٹھٹھہ قدرتی طور پر الگ ہیں اور سندھ اپر میں سکھر ڈویژن، لاڑکانہ ڈویژن‘ شکار پور سمیت دادو تک کا علاقہ کراچی اور حیدر آباد سے بالکل مختلف ہے جبکہ نواب شاہ، سانگھڑ، عمر کوٹ، بدین کا کلچر اوررہن سہن مختلف ہے ۔ اس طرح سندھ کی قدرتی طور پر تین صوبائی اکائیاں بن سکتی تھیں۔ پنجاب میں بھی تین بلکہ چار تو بنتے ہی تھے جبکہ پوٹھوہار بالکل ہی مختلف کلچر ہے۔ جنوبی پنجاب کی سرائیکی بیلٹ تو جنوبی پنجاب کے علاوہ بلوچستان ، کے پی کے اور اپر سندھ کے اضلاع تک پھیلی ہوئی ہے جبکہ فیصل آباد، سرگودھا، ساہیوال بھی لاہور گوجرانوالہ سے مختلف ہے اس طرح پنجاب کے چار صوبے باآسانی بن سکتے تھے اور یہ فارمولا جنرل تنویر نقوی کو سمجھایا بھی گیا تھا مگر وہ ضلعی نظام کے حوالے سے اپنا ذہن بنا چکے تھے لہٰذا کسی اور تجویز کو ماننے کو تیار نہ تھے۔ بلوچستان کی بھی تقسیم اس طرح سے قدرتی طور پر موجود ہے۔ سرائیکی بیلٹ‘ پشتون بیلٹ اور مکران تربت سمیت ساحلی پٹی بھی یہ ثقافتی اعتبار سے سالہا سال سے تقسیم ہیں۔ جبکہ کے پی کے میں ہزارہ ڈویژن، پشاور کے ہندکو اور سرائیکی خطے کے علاوہ دیر چترال کے لوگ بہت مختلف کلچر رکھتے ہیں۔ اس طرح کے پی کے کی بھی قدرتی طور پر تین حصوں میں تقسیم بنتی ہے۔ رہا گلگت بلتستان تو وہ تو پہلے ہی سے علیحدہ ہیں اس طرح اگر اس وقت جنرل (ر) نقوی ضلعی نظام کی بجائے اس کا دائرہ کار وسیع کرتے ہوئے دو یا تین ڈویژن پر مشتمل نظام بنا دیتے اور ان کے نیچے اضلاع میں ان کے نائب مقرر کر دیتے تو آج پاکستان کے کم از کم 14 صوبے تو ضرور ہوتے اور اس صورتحال میں کوئی صوبہ بھی وفاق کو بلیک میل کرنے کی پوزیشن میں نہ ہوتا اور نہ ہی کوئی وزیراعلیٰ اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر وفاق کو للکار رہا ہوتا۔
سرائیکستان صوبہ کی تحریک چلانے والے بلاشبہ مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے تحریک کو نہ کبھی کمزور ہونے دیا اور نہ ہی اس کو آخری گیئر میں چلانے کی کوشش کی۔ بہاولپور بحالی صوبہ تحریک تیزی سے اٹھی اور پھر تاریخ کے اوراق میں کئی سالوں کیلئے دب گئی۔ پھر اٹھی اور پھر دب گئی حتیٰ کہ بات بیان بازی تک بھی محدود نہ رہ سکی۔ یہی حال ہزارہ صوبہ تحریک کا ہوا مگر ڈائیلاگ کے قائل جنوبی پنجاب کے لوگ علیحدہ صوبے کے قیام کے لیے پر امن طور پر اپنی جدوجہد کر رہے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ اگر پیپلزپارٹی کی حکومت میں سید یوسف رضا گیلانی کو مسلم لیگ (ن) کی سپورٹ مل جاتی تو علیحدہ صوبے کا قیام ممکن ہو چکا ہوتا ۔ مگر مسلم لیگ (ن) نے عملی طور پر کچھ کرنے کی بجائے زبانی جمع خرچ ہی کئے رکھا۔ پھر صورت حال کو مزید الجھانے کے لیے دو صوبوں ملتان اور بہاولپور کی قرارداد منظور کرا لی۔ حالانکہ سینیٹ کے آئینی ادارے کے لیے تو بہاولپور سے سنیٹرز بھی پورے نہیں ہو سکتے تھے تو پھر بہاولپور کے ساتھ میلسی، لودھراں، راجن پور بھی شامل کئے جاتے تب بھی بات بننا مشکل تھا۔ سرائیکی بیلٹ کی مختلف شناخت مسلمہ حقیقت ہے۔عمران خان کے دور میں تو سرائیکی صوبہ تحریک کو دو الگ الگ سیکرٹریٹ بنا کر باقاعدہ مذاق بنانے کی بھر پور کوشش کی گئی۔ ایڈیشنل چیف سیکرٹری ملتان بیٹھے ہیں تو کئی محکموں کے دفاتر بہاولپور میں ہیں۔ اس صورتحال میں جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ عملاً غیر مؤثر ہو کر رہ گیا جبکہ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ اقتدار کے محاذ پر جا کر اپنا ٹارگٹ حاصل کر کے اپنے اصولی مؤقف سے چند ہی دنوں میں پیچھے ہٹ گیا۔
سرائیکی جماعتیں ایک کامیاب کانفرنس کرانے اور سرائیکستان تحریک کو تسلسل کے ساتھ جاری رکھنے پر مبارک باد کی مستحق ہیں اور اس خطے کے لوگوں نے دلیل ہی کے بل پر ذوالفقار علی بھٹو سے نیشنل سنٹر بھی لیا تھا جو کہ چاروں صوبائی دارالحکومتوں اور وفاق کے علاوہ صرف ملتان میں قائم ہوا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے اقتدار میں آتے ہی تمام نیشنل سنٹر بند کر کے ڈائیلاگ کلچر کا گلا گھونٹ دیا تھا اور ڈائیلاگ کی جگہ ڈانگ نے لے لی تھی جو 11 سال مسلسل چلتی رہی۔

شیئر کریں

:مزید خبریں