پاکستان کی معیشت ان دنوں ایک ایسے نازک موڑ پر کھڑی ہے جہاں ہر چھوٹا قدم کسی بڑی تباہی کو روکنے کا سبب بن سکتا ہے، اور ہر معمولی لغزش برسوں کی محنت کو ضائع کر سکتی ہے۔ حالیہ دنوں میں موڈی کی جانب سے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ کو ایک درجہ بہتر کر کے Caa2 سے Caa1 کر دینا یقیناً خوش آئند پیش رفت ہے، لیکن یہ بھی تسلیم کرنا ہو گا کہ یہ اب بھی ’جنک‘ زمرے کی سطح ہے — وہ درجہ جہاں سرمایہ کار ہچکچاتے ہیں، اور جہاں ترقی صرف ایک تصور بن کر رہ جاتی ہے۔موڈی کی تازہ ریٹنگ اگرچہ ایک مثبت اشارہ ہے، مگر یہ محض آغاز ہے؛ اصل چیلنج اب بھی اپنی جگہ قائم ہے۔ حکومت کے لیے یہ موقع ہے کہ وہ سنجیدگی سے مالی نظم و ضبط، اصلاحات اور ادارہ جاتی شفافیت کو اپنا کر پاکستان کو اس دلدل سے نکالنے کی کوشش کرے جس میں معیشت دہائیوں سے پھنسی ہوئی ہے۔وزیر خزانہ کی جانب سے چین کے ’پانڈا بانڈ مارکیٹ‘ اور دیگر عالمی مالیاتی ذرائع جیسے یورو بانڈز اور سکوک بانڈز کے اجرا کی بات کرنا ظاہر کرتا ہے کہ حکومت عالمی سرمایہ کاری کے دروازے کھٹکھٹانا چاہتی ہے۔ لیکن موجودہ کریڈٹ ریٹنگ کی حالت میں، ایسے بانڈز پر سود کی شرح بلند رہے گی، اور قرض کا بوجھ مزید بڑھے گا۔ ان کوششوں کا فائدہ تب ہی ہو سکتا ہے جب پاکستان کی ریٹنگ سرمایہ کاری کے قابل سطح یعنی ’انویسٹمنٹ گریڈ‘ تک پہنچ جائے، جس کے لیے ابھی بہت سا فاصلہ طے کرنا باقی ہے۔حکومت کی امیدیں امریکی فیڈرل ریزرو کی شرحِ سود میں ممکنہ کمی سے وابستہ ہیں، جس سے قرض لینے کی لاگت میں کمی آ سکتی ہے۔ لیکن یہ خارجی عنصر ہے، جس پر پاکستان کا براہِ راست کوئی کنٹرول نہیں۔ داخلی سطح پر اب بھی بے یقینی کی فضا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں بتدریج بہتری آ رہی ہے، مگر یہ رفتار سست ہے اور مکمل طور پر کرنٹ اکاؤنٹ خسارے پر قابو پانے سے مشروط ہے۔برآمدات کی صورتحال بھی حوصلہ افزا نہیں۔ اگرچہ امریکہ کے ساتھ تجارتی سہولتوں میں کچھ بہتری متوقع ہے، لیکن ساختی مسائل، مسابقتی کمزوری، اور کاروباری لاگت کی زیادتی کی وجہ سے برآمد کنندگان زیادہ پرامید نہیں۔ دوسری جانب، درآمدات پر مسلسل پابندیاں معاشی نمو کو محدود کر رہی ہیں۔ درآمدات میں معمولی اضافہ فوراً زرمبادلہ کی منڈی میں بے چینی پیدا کرتا ہے، جس سے روپے پر دباؤ بڑھتا ہے اور مہنگائی کی نئی لہر جنم لیتی ہے۔اس تمام صورت حال میں جس عنصر کی سب سے زیادہ کمی محسوس کی جا رہی ہے، وہ ہے غیر ملکی سرمایہ کاری (FDI)۔ اگرچہ پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں ریکارڈ سطح پر تجارت ہو رہی ہے، لیکن غیر ملکی سرمایہ کار بدستور خریدار کے بجائے فروخت کنندہ ہیں۔ وہ پاکستان میں معاشی استحکام کے بجائے اب بھی خطرہ دیکھتے ہیں۔ وہ صرف تب سرمایہ کاری کرتے ہیں جب انہیں طویل مدتی استحکام اور پائیدار ترقی کی جھلک نظر آئے—ایسا کچھ فی الحال دکھائی نہیں دیتا۔ماضی میں ٹیلی کام اور بینکاری کے شعبے میں آنے والے بڑے غیر ملکی سرمایہ کار اب یا تو ملک چھوڑ چکے ہیں یا اب تک نقصان سے نکلنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ ان تلخ تجربات کی روشنی میں یہ فطری ہے کہ سرمایہ کار اب زیادہ محتاط ہو گئے ہیں۔اسی تناظر میں حکومت کی جانب سے مشرقِ وسطیٰ سے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی جو امیدیں وابستہ کی گئی تھیں، وہ بھی دم توڑتی نظر آ رہی ہیں۔ سعودی عرب کی ریکوڈک میں ممکنہ سرمایہ کاری اب تک ایک تصوراتی دعویٰ ہی ہے، جس پر عملی پیش رفت نہیں ہو سکی۔ اسی طرح چین کے ساتھ سی پیک کا دوسرا مرحلہ اب بھی “گفتگو” کی حد تک محدود ہے، جیسا کہ پانچ سال قبل تھا۔ان ہی ناکامیوں کے بعد اب نگاہیں امریکہ کی جانب اٹھ رہی ہیں، جہاں نئی ممکنہ دوستی کا تاثر دیا جا رہا ہے، خاص طور پر بھارت اور امریکہ کے بڑھتے ہوئے تناؤ کے تناظر میں۔ لیکن یہ ایک وقتی حکمتِ عملی ہے، کیونکہ امریکہ کے طویل المدتی اسٹریٹجک مفادات اب بھی بھارت کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ اس لیے پاکستان کو اپنی معیشت کی بہتری کے لیے کسی جذباتی دوستی یا وقتی تعلقات پر نہیں بلکہ حقیقی اقتصادی اصلاحات اور پائیدار پالیسیوں پر انحصار کرنا ہوگا۔یہ بات ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ کسی بھی ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری صرف سیاسی تعلقات کی بنیاد پر نہیں آتی۔ اس کے لیے معاشی بنیادوں کا مضبوط ہونا ضروری ہے: شفافیت، مستقل مزاجی، پالیسی کا تسلسل، قانون کی بالادستی، اور سرمایہ کاروں کے لیے محفوظ اور پُرکشش ماحول۔موڈی کی ریٹنگ میں حالیہ بہتری، اگرچہ علامتی طور پر ایک مثبت پیش رفت ہے، لیکن یہ کسی بڑے جشن کا موقع نہیں۔ اصل جشن تب منایا جائے گا جب معیشت نہ صرف مستحکم ہو، بلکہ ترقی کرے؛ جب قرض کا بوجھ کم ہو، جب برآمدات میں اضافہ ہو، جب سرمایہ کار خود سے پاکستان آئیں، اور جب نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہوں۔اب وقت آ گیا ہے کہ “سرمایہ کاری کے خواب” دکھانے کے بجائے معاشی بنیادیں مضبوط کرنے پر توجہ دی جائے۔ تب ہی وہ دن آئے گا جب بین الاقوامی سرمایہ کار پاکستان کی کہانی پر یقین کریں گے، نہ کہ محض سرخیوں پر۔
