تحریر:ڈاکٹر ظفر چوہدری (روداد)
اعجاز حسین شاہ کے پہلے غصہ اور پھر ہنسنے کو میں سمجھ سکتا تھا دوسرے شرکت کرنے والے طلباء اور ماسٹر غلام عباس جتوئی صاحب نہیں سمجھ سکتے تھے۔ غصہ کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے ہمیں تقریریں پوری طرح رٹوائیں تھیں اور بار بار سنی تھیں اِس کے باوجود غلط ادائیگی پر غصہ ہونا فطری تھا۔ ہنسنے کی وجہ یہ تھی اعجاز حسین صاحب کی مادری زبان بھی پنجابی تھی اور میری بھی پنجابی تھی۔ ہندی اور پنچابی میں ظ نہیں بولا جاتا بلکہ ظہ کی جگہ ج بولا جاتا ہے اسی لیے میری والدہ اور نانی اماں اور ہندوستان میں میرے رشتہ دار مجھے ظفر کی بجائے جفر ہی کہتے تھے۔ شاہ صاحب کے ہنسنے کی وجہ بھی یہی تھی کہ ماں بولی کا اثر ہر طرح کے رٹوں سے زیادہ ہوتا ہے۔ اسی طرح میرے ہم جماعت رانا محمد اکرم کے والدین بھی ہندوستان پٹیالہ سے آئے تھے۔ وہ تھا تو پنجاب کا ہی حصہ مگر ان کا لہجہ بھی عام پنجابی سے مختلف تھا۔ وہ ہمارے اور تمہارے کی جگہ مارے تھارے بولتے تھے بعد میں اسی زبان میں محمد علی کی فلم بھی آئی تھی۔ آجکل ہندوستان میں اسے ہریانوی زبان کہتے ہیں۔جو زیادہ تر صوبہ ہریانے میں بولی جاتی ہے جسے مشرقی پنجاب سے کاٹ کر بنایا گیا تھا۔ دوسرے میرے ہم جماعت راؤ الیاس کے والدین کرنال سے آئے تھے ان کا لہجہ بھی مختلف تھا۔ بحر حال یہ پنجابی کے ضمنی لہجے سمجھے جاتے تھے۔ میرا دسویں جماعت کے ہم جماعتوں میں سے جن کے ساتھ مسلسل رابطہ رہا۔ ان میں چوہدری عبدالغفور مرحوم، ظفر اقبال قادر، رانا اکرم صاحب شامل ہیں۔
زبان کے لہجوں کی وجہ سے بات اور طرف نکل گئی ۔ جب تقریری مقابلے ختم ہوئے تو روہیلانوالی کی بس جا چکی تھی۔ اعجاز حسین شاہ صاحب کا گھر مظفر گڑھ سے 7/8 کلو میٹر اس زمانے میں 5/6 میل کے فاصلے پر حاجی واہ بس سٹاپ کے نزدیک تھا۔ مظفر گڑھ میں رات گزارنے کی بجائے اعجاز حسین صاحب نے کہا کہ میرے ساتھ میرے گھر چلو وہاں سے صبح چلے جانا۔ ہم طلباء اور ماسٹر غلام عباس جتوئی صاحب مظفر گڑھ سے پیدل روانہ ہوئے جب ہم حاجی واہ پہنچے تو پٹرول پمپ پر ایک ٹرک کھڑا تھا۔ ماسٹر غلام عباس جتوئی صاحب نے پوچھا کہ کہا ںجا رہے ہو اس نے کہا کہ علی پور جا رہا ہوں تو جتوئی صاحب نے کہا کہ آپ ہمیں روہیلانوالی تک لے جائیں گے۔ ٹرک ڈرائیور نے کہا جی جناب ۔اعجاز حسین شاہ صاحب زمیندارہ پس منظر کی وجہ سے بہت مہمان نواز بھی تھے اور حاجی واہ سے ان کا گھر تقریباً ایک فرلانگ کے فاصلے پر تھا۔ وہ ماسٹر غلام عباس جتوئی صاحب سے ناراض ہوئے کہ گھر چلتے ہیں بچے بھوکے ہیں۔آدھے گھنٹے میں کھانا تیار ہو جائیگا اور آپ لوگوں کیلئے رہائش کا بھی بندوبست ہے کوئی مسئلہ نہیں۔ مگر غلام عباس جتوئی صاحب کی ضد کی وجہ سے انہوں نے کہا کہ چلو جاؤ اسی طرح ہم رات کو تقریباً ایک بجے گھر پہنچے۔
ایک اور واقعہ بھی مجھے یاد ہے محکمہ تعلیم کے افسر کا بیٹا ہم سے ایک جماعت آگے تھا۔ جب اس کا میٹرک امتحان ہوا تو اعجاز حسین شاہ صاحب سے کہا گیا کہ آپ حساب کے پرچے میں اس کی مدد کریں۔ حساب کے سوال لکھنے کیلئے مجھے اور امداد کو بلوایا گیا۔ مجھے اعجاز حسین شاہ صاحب کا چہرہ آج بھی یاد ہے کتنےکرب میں انہوں نے سوال لکھوا کر اس آفسر کو دیئے اور ہمیں کہا کہ تم سے غلط کام کروایا ہے۔ مگر یاد رکھنا تمہیں سالانہ امتحان میں کوئی مدد نہیں ملے گی کسی با اصول آدمی کیلئے غلط کام کرنا کتنا اذیت ناک ہوتا ہے۔ محکمہ تعلیم کے اس آفسر کا چہرہ بھی اس دن ندامت کا اعلی نمونہ تھا۔ کیونکہ وہ ہمیں اور ایمانداری کا درس دیا کرتے تھے۔ اعجاز حسین صاحب نے بعد میں بتایا کہ آفسر اپنی بیوی کا دبائو برداشت نہ کر سکا جس کی وجہ سے اسے اپنے بچوں کی ناجائز امداد کرنا پڑی۔
آجکل ناجائز کام کرانا اور اختیارات کا ناجائز استعمال کرنا کوئی بری بات نہیں سمجھی جاتی بلکہ اپنا حق سمجھا جاتا ہے اپنا ایمان تو ہماری اکثریت سالوں پہلے ہی بیچ چکی تھی اب تو آنکھ میں شرم بھی باقی نہیں رہی۔