تحریر:(کار جہاں) میاں غفار
سرائیکی دانشور اور کالم نگار ظہور دھریجہ نے ملتان میں آل پارٹیز صوبہ سرائیکستان کانفرنس کا انعقاد کر کے اپنی مستقل کاوشوں کے حوالے سے ایک اور سنگ میل عبور کر لیا ہے اور سب سے خوبصورت بات یہ ہے کہ ایک بھی گملا توڑے بغیر سرکاری املاک کو نقصان پہنچائے اور جلائو گھیرائو کئے بغیر یہ تحریک مسلسل آگے بڑھ رہی ہے جس کا کریڈٹ اس خطے کے برد بار باسیوں کو جاتا ہے۔ اس خطے کے لوگ ڈائیلاگ اور دلیل کے قائل ہیں اور ہمیشہ اسی ہتھیار کا خوبصورتی سے استعمال کرتے ہیں۔ سرائیکی صوبہ تحریک کے تمام نشیب و فراز کا میں عینی شاہد ہوں کہ گذشتہ 26 سال سے تو اسے مرحلہ وار آگے بڑھتا ہوا دیکھ رہا ہوں اور اگر اس خطے کے سیاستدان سچ کو تسلیم کریں تو سرائیکی صوبے کے لیے پارلیمنٹ کے پلیٹ فارم پر جو کوششیں سید یوسف رضا گیلانی نے کیں وہ اور کسی کے کریڈٹ میں نہیں ۔ حالانکہ سید یوسف رضا گیلانی کے پاس بطور وزیراعظم دو تہائی اکثریت ہوتی تو آج علیحدہ صوبہ بن چکا ہوتا کیونکہ جبکہ صوبے آئین سازی کے ذریعے ہی بنائے جا سکتے ہیں جس کے لیے دو تہائی اکثریت لازمی ہے۔ یہ دو تہائی اکثریت سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کو اپنے دوسرے دور میں 1996ء میں ملی وہ چاہتے تو با آسانی علیحدہ صوبہ بنا سکتے تھے مگر انہوں نے ایسا نہ کیا کہ ان کی تو سیاست کا سارا دارومدار ہی پنجاب کی گرفت تھا۔ 1997ء میں پنجاب کی تقسیم پر لکھنا جرم عظیم تھا اور مجھے از خود جنوبی پنجاب علیحدہ صوبہ وقت کی ضرورت کے حوالے سے کالمز لکھنے پر اسلام آباد طلب کیا گیا تھا جہاں میں ضیاء شاہد مرحوم کے کہنے پر اپنے متعلقہ محکمے میں ہدایت نامی پیشی بھگت کر آ یا تھا۔
ضیاء شاہد نے اپنے قلم کے ذریعے جنوبی پنجاب کے علاقوں پر مشتمل علیحدہ صوبے کے لیے بہت سا کام کیا اور مکمل کیس بنا کر سابق صدر جنرل پرویز مشرف سے وقت لیکر ان سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کا 62 فیصد تو پنجاب سے اور 38 فیصد بقایا پاکستان۔ آپ چھوٹے صوبے بنائیں اور کم از کم پنجاب کو تو دو بلکہ تین صوبوں میں تقسیم کریں۔
جنرل مشرف کو ضیاء شاہد کی تجاویز بہت پسند آئیں اور انہوں نے (ق) لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کو فون کر کے کہا کہ آپ اور چوہدری پرویز الٰہی ضیاء شاہد کو پہلی فرصت میں وقت دیں اور ان کی بات سنیں۔ ضیاء شاہد بہت خوش ہوئے اور انہوں نے چودھری شجاعت حسین سے رابطہ کیا تو چوہدری شجاعت حسین نے انہیں فوری طور پر بلا لیا۔ ضیاء شاہد بھاری دلائل پر مشتمل فائل لیکر چوہدری شجاعت حسین کے پاس پہنچے تو وہ سخت ناراض ہوئے اور انہوں نے اپنی عادت کے برعکس باقاعدہ ضیاء شاہد مرحوم سے جھگڑا کیا۔ کہنے لگے ’’ اے توسی کی صدر مشرف اگے نواں کٹا کھول آئے او۔ تہانوں کی مسئلہ اے پرویز الٰہی نال۔ کیوں اس دے علاقے گھٹان دی کوشش کر دے پئے او۔ ضیاء صاحب کن کھول کے سن لئو۔ ساڈے ہوندیاں تے اے کم نہیں ہوندا تے بند کرو اے فائیلاں شائیلاں‘‘ (یہ آپ کیا صدر مشرف کو نئی پٹی پڑھا آئے ہیں۔ آپ کو پرویز الٰہی کے ساتھ کیا مسئلہ ہے آپ کیوں ان کے اختیارات اور علاقہ جات کم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ضیاء شاہد کان کھول کر سن لیں۔ ہمارے ہوتے ہوئے یہ کام نہیں ہو گا۔ بند کرو یہ فائلیں) اور اس طرح پرویز مشرف کے احکامات بھی مسترد ہو گئے۔ پھر بات ہی ختم ہو گئی۔
دو تہائی اکثریت کے باوجود میاں نواز شریف نے جنوبی پنجاب کے اضلاع پر مشتمل علیحدہ صوبہ جسے سرائیکستان کہہ لیتے یا کوئی بھی نام دے دیتے۔ صوبہ تو بناتے۔ سرحد کا نام کے پی کے ہو گیا تو اس کا نام بھی بدل سکتا تھا مگر بنا تو دیتے الٹا معاملہ خراب کرنے کے لیے دو صوبوں کی قراردادیں پنجاب اسمبلی سے منظور کروا کر معاملے کو خراب کر دیا گیا۔ رہی سہی کسر عمرانی دور میں عثمان بزدار نے نکال دی اور ایک سیکرٹریٹ بنتے بنتے دو صوبائی سیکرٹریٹ اور وہ بھی مکمل ہے اختیار بنا کر سکھا شاہی دور کی یاد تازہ کر دی گئی۔ اس مقصد کے لیے چوہدری طارق بشیر چیمہ نے اندر خانے معاملات طے کر کے اپنی خدمات پیش کیں اور جنوبی پنجاب کے اضلاع پر مشتمل جو علیحدہ صوبہ بنایا جانا تھا اس کیلئے کمیٹی بنائی گئی جس کمیٹی نے سارے کام پر ہی مٹی ڈال دی۔
سرائیکی صوبے کی تحریک صوبہ ہزارہ کی طرح نہ تو اچانک اٹھی اور نہ ہی اس میں تعطل آیا یہاں کے دانشور ،سرائیکی پارٹیاں، تنظیمیں، یوتھ فورم اور طلبہ تنظیمیں مسلسل اپنا اپنا حصہ ڈال رہی ہیں اور دلائل کے میدان میں ظہور دھریجہ نے بیرسٹر تاج محمد خان لنگاہ مرحوم کے انداز فکر کو بہت حد تک آگے بڑھایا ہے۔ کاش سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کی مخلصانہ کوشش پر لبیک کہتے ہوئے مسلم لیگ (ن) مسلم لیگ (ق) اور دیگر جماعتیں اس ایک معاملے پر تو کم از کم متحد ہو جاتیں تو آج سرائیکی بیلٹ پر مشتمل علیحدہ صوبہ بنے ہوئے بھی 13 سال ہو چکے ہوتے۔ ( جاری ہے )