خیبر پختونخوا کے پہاڑی سلسلوں اور وادیوں میں حالیہ طوفانی بارشوں اور فلیش فلڈز نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ پاکستان قدرتی آفات کے سامنے کتنا بے بس اور غیر تیار کھڑا ہے۔ محض دو دن کی بارشوں نے بونیر، سوات، شانگلہ، مانسہرہ، باجوڑ اور دیگر اضلاع کو کھنڈر میں بدل دیا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف بونیر میں 209 افراد جاں بحق اور 120 زخمی ہوئے، جبکہ مجموعی طور پر صوبے بھر میں ہلاکتوں کی تعداد 314 تک پہنچ گئی۔ ہزاروں خاندان بے گھر ہوئے، مکانات، اسکول اور بنیادی ڈھانچہ زمین بوس ہوگیا۔ یہ سب کسی ایک قدرتی حادثے کا نتیجہ نہیں، بلکہ دہائیوں کی مجرمانہ کوتاہیوں اور ادارہ جاتی غفلت کا حاصل ہے، جس نے سیلاب کو محض ایک موسمی آفت نہیں بلکہ اجتماعی تباہی میں بدل دیا۔
وزیراعظم شہباز شریف نے متاثرہ اضلاع میں وفاقی وزراء کو تعینات کر کے ریلیف آپریشنز کی براہِ راست نگرانی کا حکم دیا ہے۔ فوجی ہیلی کاپٹر خوراک اور ادویات متاثرہ بستیوں تک پہنچا رہے ہیں، ریسکیو 1122 کے دو ہزار اہلکار ملبے تلے دبے افراد کو نکالنے اور لاشوں کی بازیابی میں مصروف ہیں۔ لیکن یہ سب اقدامات اس وقت کے ہیں جب طوفان تباہی مچا چکا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی ڈیزاسٹر مینجمنٹ مشینری ہمیشہ بعد از سانحہ متحرک ہوتی ہے۔ بار بار کے تجربات اور پیشگی وارننگز کے باوجود عوام کو بروقت محفوظ مقامات پر منتقل نہیں کیا جاتا، دریا کے کنارے اور نالوں کے قریب غیر محفوظ تعمیرات روکنے کے لیے کوئی سنجیدہ پالیسی نہیں بنائی جاتی، اور جنگلات کی کٹائی مسلسل جاری رہتی ہے۔ یہی وہ عوامل ہیں جو ایک بارش کو قیامت میں بدل دیتے ہیں۔
یہ صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی یہی صورتحال ہے۔ سوئس ری (Swiss Re) کی تازہ رپورٹ کے مطابق 2025ء کے پہلے چھ ماہ میں دنیا کو قدرتی آفات سے 135 ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہوا، جن میں سے 80 ارب ڈالر بیمہ شدہ نقصانات تھے، جو گزشتہ دہائی کے اوسط سے تقریباً دگنے ہیں۔ یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ماحولیاتی تغیرات نے خطرات کو کس تیزی سے بڑھا دیا ہے اور دنیا کے بڑے ادارے بھی اس کے تخمینے میں ناکام ہو رہے ہیں۔ جب بیمہ کمپنیاں اپنی تمام سائنسی ماڈلنگ کے باوجود خطرات کی درست پیش بندی نہیں کر سکیں، تو اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ترقی پذیر ممالک جیسے پاکستان، جہاں بیمہ کی رسائی نہ ہونے کے برابر ہے، وہاں صورت حال کتنی سنگین ہو سکتی ہے۔
اس رپورٹ میں واضح کہا گیا ہے کہ آگ، طوفان اور سیلاب جیسے خطرات کے خلاف محض بعد از سانحہ اقدامات کافی نہیں۔ ڈیم، فلڈ گیٹس، جنگلات کی بحالی، مضبوط انفراسٹرکچر اور سخت زوننگ قوانین وہ اقدامات ہیں جو آفات کے نقصانات کو دس گنا تک کم کر سکتے ہیں۔ لیکن پاکستان جیسے ممالک میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ آج بھی زیادہ تر ردعمل پر مبنی ہے، پیشگی تیاری پر نہیں۔ خیبر پختونخوا میں حالیہ تباہی نے ایک بار پھر یہ حقیقت آشکار کر دی ہے کہ ہمارے ادارے ماحولیاتی تغیر کو اپنی منصوبہ بندی کا مرکزی نکتہ بنانے میں ناکام رہے ہیں۔
یہ ناکامی صرف اداروں کی نہیں بلکہ سیاسی قیادت کی بھی ہے، جو ہمیشہ ہنگامی فوٹو سیشنز اور امدادی اعلانات تک محدود رہتی ہے۔ جب تک ریاست اپنے نوآبادیاتی ورثے کی طرح کی سوچ — یعنی خفیہ کاری، وقتی ردعمل اور عوام کو اندھیرے میں رکھنے — سے باہر نہیں نکلے گی، ہر سال نیا سیلاب اور نئی تباہی ہمیں گھیرتی رہے گی۔ پاکستان کے لیے وقت تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔ اگر اب بھی ماحولیاتی موافقت اور پیشگی تیاری کو قومی سلامتی پالیسی کا حصہ نہ بنایا گیا تو نہ صرف انسانی جانیں بلکہ ملکی معیشت بھی ہر برس ڈوبتی رہے گی۔
سوئس ری کی رپورٹ اور خیبر پختونخوا کی موجودہ صورتحال ہمیں ایک ہی سبق دیتی ہے: یہ وقت محض آفات کے بعد مرہم پٹی کا نہیں بلکہ مستقل حکمتِ عملی اپنانے کا ہے۔ جنگلات کی بحالی، خطرناک علاقوں سے آبادیاں منتقل کرنا، شہری منصوبہ بندی میں ماحولیاتی خطرات کو شامل کرنا، اور جدید پیشگی انتباہی نظام کو فوری طور پر نافذ کرنا ہی پاکستان کو مستقبل کے طوفانوں سے بچا سکتا ہے۔ بصورت دیگر، یہ ملک ہر سال لاشوں، ملبے اور وعدوں کی ایک نئی فہرست کے ساتھ کھڑا ہوگا۔
سابق وزیرِ ماحولیاتی تبدیلی شیری رحمان نے درست نشاندہی کی ہے کہ اس تباہی کے پیچھے براہِ راست عالمی ماحولیاتی بحران اور اندرونی سطح پر ناقص پالیسی سازی ذمہ دار ہیں۔ خیبر پختونخوا کے پہاڑی جنگلات غیر قانونی کٹائی اور لینڈ مافیا کے ہاتھوں نوچ لیے گئے ہیں۔ صرف سوات میں 30 سے 40 فیصد تک جنگلات ختم ہو چکے ہیں، جبکہ قومی سطح پر جنگلات کا رقبہ تین دہائیوں میں 18 فیصد کم ہو گیا۔ جنگلات کی یہ تیزی سے کمی پہاڑوں سے بہنے والے پانی کو روکنے کے بجائے ایک طوفانی ریلے میں بدل دیتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ زمینوں پر قبضے، دریاؤں کے کنارے کچی بستیاں اور ناقص تعمیرات بارشوں کے ساتھ مل کر انسانی جانوں کا قبرستان بن جاتی ہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ تباہی کسی انوکھے اتفاق کا نتیجہ نہیں۔ پاکستان نے محض تین سال قبل 2022ء کے مہا سیلاب میں 1700 جانوں اور تین کروڑ بے گھر افراد کی شکل میں قیامت دیکھی تھی۔ اس وقت بھی عالمی برادری نے اسے “کلائمٹ کیٹاسٹروفی” قرار دیا تھا۔ آج بونیر اور شانگلہ کے مناظر اسی سانحے کا تسلسل ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر ریاست نے ان تین برسوں میں کیا سیکھا؟ ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹیز اب تک متحرک ایپ، رئیل ٹائم مانیٹرنگ اور کمیونٹی بیسڈ ایمرجنسی پلان کیوں نہ بنا سکیں؟ لوکل گورنمنٹس کو بااختیار کیوں نہ کیا گیا؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ عوام کو بروقت محفوظ علاقوں میں منتقل کرنے کے لیے ٹھوس میکنزم کیوں نہ بنایا گیا؟
اب بھی وقت ہے کہ حکمران محض ریلیف فوٹو سیشن اور اشک شوئی پر اکتفا نہ کریں بلکہ بنیادی پالیسی شفٹ کریں۔ فوری طور پر متاثرین کے لیے محفوظ شیلٹرز، ایمرجنسی فوڈ اسٹاک اور فری میڈیکل کیمپس قائم کیے جائیں۔ فوجی انجینئرنگ یونٹس کو عارضی پل اور رابطہ سڑکیں بنانے کے لیے استعمال کیا جائے تاکہ امداد کی ترسیل ممکن ہو۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ طویل المدت اقدامات ناگزیر ہیں: دریا کنارے تجاوزات کے خلاف سخت ترین کارروائی، جنگلات کی بحالی، کلائمیٹ ایڈاپٹیشن کو قومی سلامتی پالیسی کا حصہ بنانا، اور عوام کے لیے پیشگی انتباہی نظام کی مضبوطی۔
پاکستان کے عوام نے بار بار اپنی جانوں اور مال سے یہ قیمت چکائی ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کو نظرانداز کرنا خودکشی کے مترادف ہے۔ اگر ریاست نے فوری طور پر ماحولیاتی اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ اصلاحات کو اولین ترجیح نہ بنایا تو آنے والے برسوں میں یہ تباہیاں محض خبروں کی سرخیاں نہیں رہیں گی بلکہ ہمارے سماجی اور معاشی وجود کو نگل جائیں گی۔ بونیر، سوات اور شانگلہ کے ملبے تلے دبے یہ سینکڑوں لاشیں دراصل ہمارے ریاستی نظام پر ایک فردِ جرم ہیں، اور اس فردِ جرم کا جواب دینا حکمران طبقے کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔
