آج کی تاریخ

گستاخ (قسط اول)

سارے پنڈ دا جوائی

تحریر:میاں غفار

میاں غفور مجھ سے تین چار سال چھوٹا ہی ہو گا۔ وہ روزنامہ پاکستان لاہور میں میرے ساتھ کام کرتا تھا اور متحرک کالم نگار میاں حبیب اللہ کا دوست تھا۔ روزنامہ پاکستان کے سامنے ٹولنٹن مارکیٹ کے عقب میں گندے نالے کے کنارے فیروز پور روڈ پر ایک شخص کنڈا اور لکڑیوں کے کٹے ہوئے ٹکڑے لے کر بیٹھ گیا۔ ہم دونوں وہاں سے گزر رہے تھے تو میاں غفور نے مجھے روکا۔ کہنے لگا یاد ہے میں نے آپ سے کہا تھا کہ یہ جگہ لاوارث ہے‘ اس پر قبضہ ہو جائے گا۔ نالے کے کنارے پختہ کر کے یہ تین چار مرلے جگہ کروڑوں کی ہو جائے گی مگر آپ نے میری بات نہ مانی۔ میں نے میاں غفور سے کہا کہ غریب مزدور ٹال بنا کر بیٹھا ہے اور تم اسے قبضہ کہہ رہے ہو اور تمہیں پتہ ہے کہ کسی کی جگہ پر قبضہ کرنے والے بارے دین کیا کہتا ہے۔ میں تو قبضہ شدہ زمین کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا کون حساب دیتا پھرے۔ چند ہی سالوں بعد میں نے فیروز پور روڈ سے گزرتے ہوئے دیکھا کہ اس جگہ پر دو منزلہ کمرشل عمارت بن چکی ہے۔
میاں غفور کہا کرتا تھا کہ پاکستان نے ٹھیک نہیں ہونا بلکہ حالات زیادہ خراب ہونے ہیں۔ لہٰذا یہاں سے نکلیں اور ایسے ملک میں جا کر رہیں جو پہلے ہی سے ٹھیک ہو۔ میں اس کی باتوں اور دلائل سے اتفاق نہیں کرتا تھا۔ پھر ایک دن میاں غفور فرانس چلا گیا اور اب گذشتہ 25 سال سے برطانیہ میں مقیم ہے اور وہاں کی شہریت اختیار کر چکا ہے۔ جب بھی ملتا ہے یہی کہتا ہے ’’سچ بتائو میری باتیں درست نہ تھیں‘‘ وہ زندگی کو انجوائے کر رہا ہے اور اس کے سارے پاکستانی دوستوں کو زندگی اور ملکی صورتحال انجوائے کر رہی ہے۔
بزرگ کہا کرتے تھے کہ جس درخت پر پرندے گھونسلے بنانا چھوڑ دیں یا گھونسلے خالی کر جائیں اس درخت کے نیچے سونا اور جانور باندھنا چھوڑ دو۔ وہ بس گرنے ہی والا ہے اور حیران کن طور پر مذکورہ درخت اسی سیزن میں ضرور گر جاتا تھا۔ پاکستان کے گھنے اور پھلدار درخت سے اشرافیہ نامی اس درخت کے مکین اپنے اپنے گھونسلے خالی کر کے پہلے ہی سے ٹھیک ملکوں میں اپنی اولادیں منتقل کر چکے ہیں اور ایسے سرکاری افسران کی تعداد لاکھوں میں ہے جن کی جائیدادیں ملک سے باہر ہیں حتیٰ کہ اولادیں بھی۔ ایسے پاکستانی افسران کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے جو پاکستان میں شاپنگ کرنا چھوڑ چکے ہیں اور سال میں دو تین مرتبہ شاپنگ کیلئے دبئی یاترا کرتے ہیں۔
ہم دونوں کا ایک اور مشترکہ دوست بھی بے روزگاری اور غربت سے تنگ آ کر پاکستان چھوڑ گیا تھا۔ اب اسے کرائے کی مد میں ہر ماہ ہزاروں ڈالر آتے ہیں وہ سالہا سال سے کوئی کام نہیں کرتا ۔وہ بہت چرب زبان تھا اور لاہور کے سرکاری حلقوں میں پھرتا رہتا تھا۔ ہم اسے خدائی خدمت گار کہتے تھے۔ اس نے صرف ایک سرکاری آفیسر کو بیرون ملک کمرشل پراپرٹی لے کر دی اور پھر اس کا اعتماد اشرافیہ پر بحال ہو گیا کہ کمیشن لیتا ہے مگر بے ایمانی نہیں کرتا۔ آج وہ کبھی پاکستان آئے تو سرکاری گاڑیاں اور سرکاری ریسٹ ہائوس اس کے منتظر ہوتے ہیں۔ وہ سینکڑوں کا رازدان ہے اور افراد کے نام لئے بغیر کئی کہانیاں سناتا ہے ۔ محتاط اتنا کہ اس کی کہانیوں سے اندازہ بھی نہیں لگتا کہ وہ کس کے بارے گوہر افشانی کر رہا ہے۔ پاکستان میں اس کے ڈیرے کے اخراجات ہی کروڑوں میں ہیں اور سیکریسی برقرار رکھتے ہوئے میں یہ بھی نہیں لکھ سکتا کہ اس کا ڈیرہ پاکستان کے کس شہر میں ہے البتہ سکھوں کی وہ مثال اس پر صادق آتی ہے ’’سارے پنڈ دا جوائی ‘‘ یعنی سارے گائوں والوں کا داماد‘ کہ اسے پاکستان آنے پر فرداً فرداً اسی قسم کا پروٹوکول ملتا ہے۔
پاکستان نامی درخت سے اشرافیہ کی اولادیں گھونسلے خالی کر کے اڑان بھر چکی ہیں کہ مال و دولت کی وسعت نے ان کی نظروں میں یہ گھونسلے اب چھوٹے کر دیئے ہیں۔ وہ عارضی زندگی میں مستقل انجوائے کر رہے ہیں۔ اللہ پاکستان نامی اس درخت کی خیر کرے جس کی چھائوں میں کروڑوں عزتیں اور بھرم پناہ گزین ہیں۔

شیئر کریں

:مزید خبریں