پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کا شعبہ اس وقت ایک دوراہے پر کھڑا ہے۔ حالیہ اطلاعات کے مطابق پنجاب کی متعدد جامعات اور کالجوں میں اس سال داخلے 25 سے 30 فیصد تک کم ہو چکے ہیں۔ یہ اعداد و شمار کسی فوری بحران کے نہیں بلکہ طویل عرصے سے جاری پالیسی غلطیوں کا عکس ہیں۔ اگرچہ اعلیٰ تعلیم کے اداروں کی تعداد میں اضافہ قابلِ ذکر ہے، لیکن اس کی بنیاد میں نہ منصوبہ بندی ہے، نہ مالی استحکام اور نہ ہی معیاری تدریس کی ترجیح۔گزشتہ دو دہائیوں میں تعلیمی ادارے بڑی تیزی سے پھیلائے گئے۔ ہر دوسری جامعہ نئی فیکلٹی یا ڈگری کا آغاز کرتی دکھائی دی، لیکن اس وسعت کی پشت پر نہ اساتذہ کی تیاری تھی، نہ بنیادی سہولیات، اور نہ ہی معیار کی کوئی ضمانت۔ انڈرگریجویٹ تعلیم کو آمدنی کا ذریعہ سمجھتے ہوئے، اداروں نے اسے ایک ایسے کاروباری ماڈل میں ڈھال دیا ہے جہاں طالب علم، معیارِ تعلیم سے زیادہ، فیس کی مد میں اہم ہوتا ہے۔ادھر، حکومت کی جانب سے فنڈنگ یا تو جمود کا شکار رہی یا وقت کے ساتھ کم ہوتی گئی۔ جب تعلیم پر سبسڈی گھٹتی ہے اور فیسیں بڑھتی ہیں، تو غریب اور متوسط طبقے کے طلبہ کے لیے اعلیٰ تعلیم کا حصول مزید مشکل ہو جاتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں ریاستی غفلت، تعلیمی اداروں کی بے ہنگم توسیع اور والدین کا بڑھتا ہوا عدم اعتماد آپس میں ٹکرا کر ایک خطرناک بحران کو جنم دیتے ہیں۔حالیہ برسوں میں اساتذہ پر تحقیقی مقالوں کی اشاعت کا دباؤ اتنا بڑھا دیا گیا ہے کہ تدریس، بالخصوص انڈرگریجویٹ سطح پر، ایک ثانوی عمل بن چکی ہے۔ نہ صرف کلاس روم کا ماحول متاثر ہوا ہے بلکہ علمی دیانت کے اصول بھی پامال ہوئے ہیں۔ جعل سازی، سرقہ اور محض نمبر بنانے کی دوڑ نے تعلیم کو روح سے خالی کر دیا ہے۔ اس ماحول میں والدین اور طلبہ دونوں یہ سوال کرنے پر مجبور ہیں: کیا واقعی یہ چار سالہ ڈگری اس سرمایہ کاری کے قابل ہے؟دوسری طرف وہ جامعات جو معیارِ تعلیم پر سمجھوتہ نہیں کرتیں، وہاں آج بھی داخلوں کی تعداد کم نہیں ہوئی۔ خاص طور پر وہ شعبہ جات جو مارکیٹ میں براہ راست روزگار سے جُڑے ہیں—جیسے آئی ٹی، ڈیجیٹل ٹیکنالوجی، اور ڈیٹا سائنس—وہاں طلبہ کی دلچسپی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ لیکن اس رجحان نے ایک اور چیلنج پیدا کر دیا ہے: ہر جامعہ اب انہی “منافع بخش” شعبوں کا آغاز چاہتی ہے، چاہے ان کے پاس اس کے لیے سہولیات ہوں یا نہ ہوں۔ یہ کیفیت ایک اور سطحی وسعت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔عالمی سطح پر بھی اعلیٰ تعلیم کے روایتی ماڈلز پر سوال اٹھنے لگے ہیں۔ کیا چار سالہ ڈگری واقعی ضروری ہے؟ یا مخصوص مہارتوں پر مبنی مختصر کورسز ہی کافی ہیں؟ آن لائن تعلیم، مائیکرو کریڈنشلز، اور ہائبرڈ لرننگ جیسے ماڈلز ایک نئی سمت کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ ایسے میں پاکستان جیسے ملک کو ایک واضح، مدبرانہ اور زمینی حقائق پر مبنی حکمتِ عملی کی اشد ضرورت ہے۔یہ وقت محض ڈگریوں کی تعداد بڑھانے کا نہیں، بلکہ تعلیم کے مقصد پر دوبارہ غور کرنے کا ہے۔ ہمیں طے کرنا ہوگا کہ کیا ہر جامعہ کو ہر مضمون پڑھانا چاہیے؟ یا ایک درجہ بندی اور تخصص کا نظام زیادہ مؤثر ثابت ہو گا؟ کیا ہمیں ان اداروں کو مراعات دینی چاہئیں جو انڈرگریجویٹ سطح پر معیاری تعلیم فراہم کرتے ہیں؟ اور سب سے اہم، کیا ہم اس نظام کو اس طرح فنانس کر رہے ہیں کہ یہ ایک وسیع طبقے کو فائدہ پہنچا سکے؟حکومت اس وقت ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے نئے چیئرمین کے تقرر کے عمل سے گزر رہی ہے۔ کیا ہی بہتر ہو کہ اس تقرری سے قبل ایک جامع قومی مکالمہ کیا جائے اور تعلیمی ترجیحات کا ازسرِ نو تعین کیا جائے۔ یا کم از کم نئی قیادت کی اولین ذمہ داری یہ ہو کہ وہ ملک بھر میں اعلیٰ تعلیم کے نظام کا غیرجانبدار اور بصیرت افروز جائزہ لے۔کیونکہ اگر ہم نے وقت کی آواز نہ سنی، تو اعلیٰ تعلیم کا یہ شعبہ صرف داخلوں میں کمی کا سامنا نہیں کرے گا، بلکہ اس کی معنویت، افادیت اور اعتبار بھی خطرے میں پڑ جائے گا۔ اور جو قومیں تعلیم پر سمجھوتہ کرتی ہیں، وہ ترقی کی دوڑ میں ہمیشہ پیچھے رہ جاتی ہیں۔
