آج کی تاریخ

تعلیم کی آڑ میں جنسی بھیڑیے — اب خاموشی کی گنجائش نہیں

ایمرسن یونیورسٹی ملتان سے متعلق روزنامہ قوم کی 14 اور 15 اگست 2025ء کی اشاعت میں شائع ہونے والی تحقیقاتی رپورٹوں نے محض ایک ادارے کی ساکھ کو مجروح نہیں کیا، بلکہ پوری قوم کا سر شرم سے جھکا دیا ہے۔ اس رپورٹ نے اس بھیانک حقیقت کا پردہ چاک کیا ہے کہ کس طرح ایک مبینہ جنسی مریض کو ایک تاریخی درسگاہ کا سربراہ مقرر کیا گیا، اور ریاستی ادارے، جامعاتی ضابطے اور انٹیلی جنس نظام سب تماشائی بنے رہے۔ڈاکٹر رمضان گجر کی بطور وائس چانسلر ایمرسن یونیورسٹی تعیناتی ایک افسوسناک مثال ہے کہ پاکستان کے نظامِ تعلیم میں سفارشی کلچر اور اقربا پروری کس حد تک سرایت کر چکے ہیں۔ یہ محض ضابطوں کی خلاف ورزی نہیں تھی، بلکہ ایک مجرمانہ غفلت تھی۔ وہ شخص جو پہلے ہی ایک طالبہ کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزام میں برطرف کیا جا چکا تھا، اسے کیسے ایک اعلیٰ تعلیمی ادارے کی باگ ڈور سونپی جا سکتی ہے؟ اس وقت کے حکومتی بااختیار حلقوں، بالخصوص سابق وزیر اعظم کی قریبی ساتھی فرح گوگی کی سفارش پر یہ تقرری بذاتِ خود ایک ناقابل معافی جرم ہے۔تاہم، سب سے ہولناک انکشاف وہ ہے جو حالیہ دنوں سامنے آیا: وائس چانسلر کے باورچی نے اپنے حلفیہ بیان میں بتایا کہ اسے اور اس کی کمسن بیٹی کو جنسی تعلقات کے لیے مجبور کیا گیا۔ یہ الزام محض الفاظ کا کھیل نہیں، بلکہ اس کے ساتھ ویڈیو کلپ بطور ثبوت بھی پیش کیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر کب تک ہماری جامعات درندگی کا مرکز بنی رہیں گی اور ریاست خاموش تماشائی بنی دیکھتی رہے گی؟ایمرسن یونیورسٹی کا یہ پہلا واقعہ نہیں۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور، این ایف سی انسٹیٹیوٹ ملتان، بہاء الدین زکریا یونیورسٹی، یو اے ایف فیصل آباد، پنجاب یونیورسٹی — سب ہی اس شرمناک رجحان کا شکار رہ چکی ہیں۔ ایک کے بعد ایک جامعہ میں وائس چانسلرز پر جنسی ہراسانی، کرپشن، اور میرٹ کے قتل کے الزامات سامنے آتے ہیں، لیکن نہ کوئی سنجیدہ اصلاحات کی جاتی ہیں، نہ ہی تعیناتیوں کے عمل میں شفافیت یا احتساب شامل کیا جاتا ہے۔یہ سب کچھ اس وقت ہو رہا ہے جب قوم اپنے تعلیمی اداروں سے اخلاقیات، ترقی، اور مہذب معاشرتی اقدار کی امید رکھتی ہے۔ جب وائس چانسلر جیسے عہدے پر بیٹھا شخص درندہ صفت نکلے تو وہ ادارے علم کے نہیں، خوف کے مراکز بن جاتے ہیں۔ طالبات کے لیے یہ جگہیں تعلیم کے بجائے استحصال کی علامت بن جاتی ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اب محض بیانات، کمیٹیاں، اور وقتی معطلیوں سے آگے بڑھ کر مؤثر اور دیرپا اقدامات کیے جائیں۔ ماہرین تعلیم، والدین، اور شہریوں کا یہ مطالبہ نہ صرف برحق ہے بلکہ وقت کی اہم ترین ضرورت بھی کہ:وائس چانسلرز سمیت تمام اعلیٰ عہدیداروں کی تقرری سے قبل مکمل نفسیاتی و اخلاقی جانچ کی جائے۔امیدواروں کا پولیس اور انٹیلی جنس کلیرنس لازمی ہو، خصوصاً اگر ان پر ماضی میں کوئی جنسی ہراسانی یا اختیارات کے ناجائز استعمال کا الزام ہو چکا ہو۔ہر جامعہ میں انڈیپنڈنٹ شکایات سیل قائم کیا جائے جو براہِ راست ہائر ایجوکیشن کمیشن یا محتسب کے ماتحت ہو۔طلبہ، تدریسی عملے، اور غیر تدریسی عملے کے لیے تحفظاتی میکانزم بنایا جائے تاکہ وہ بنا خوف شکایات درج کرا سکیں۔اعلیٰ تعلیمی اداروں کی نگرانی کے لیے ریاستی سطح پر خودمختار مانیٹرنگ بورڈ تشکیل دیا جائے جو تقرریوں، اخراجات، اور نظم و ضبط کی نگرانی کرے۔اگر اب بھی ہم نے آنکھیں بند رکھیں، تو یہ سلسلہ رکے گا نہیں — بلکہ پھیلے گا۔ تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی، اگر ہم نے تعلیمی اداروں میں بیٹھے ان سفاک چہروں کو محض ادارتی بیانات، ٹوئیٹس اور وقتی غصے تک محدود رکھا۔تعلیم قوموں کی تعمیر کا سب سے مضبوط ستون ہے۔ اگر اس ستون کو اندر سے دیمک لگ جائے، تو پھر کسی دشمن کو حملہ کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ریاست، حکومت، اور تعلیمی ادارے اجتماعی طور پر فیصلہ کریں: کیا ہم واقعی تعلیم کو محفوظ اور معزز بنانا چاہتے ہیں؟ یا آنے والی نسلوں کو ان بھیڑیوں کے سپرد کرنے پر آمادہ ہیں؟

شیئر کریں

:مزید خبریں