آج کی تاریخ

طوفانوں کی زد میں خیبرپختونخوا: ایک انسانی سانحہ

خیبرپختونخوا ان دنوں ایک شدید انسانی بحران کا سامنا کر رہا ہے۔ جون کے آخر سے شروع ہونے والے مون سون بارشوں کے سلسلے نے اس خوبصورت مگر حساس صوبے کو بربادی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ آسمان سے برستے پانی نے زمین پر موت کا سماں پیدا کر دیا، جہاں ہر جانب سے تباہی، ملبہ، چیخیں اور آنسو سننے کو مل رہے ہیں۔ گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 146 تک جا پہنچی ہے، جبکہ درجنوں افراد تاحال لاپتہ ہیں۔ صرف بنیر میں 78 افراد کی جانیں چلی گئیں۔یہ اعداد و شمار محض ایک دن کی تباہی کی کہانی سناتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ صوبہ خیبرپختونخوا گزشتہ کئی ہفتوں سے بارشوں، طوفانی سیلابوں، اور پہاڑی تودے گرنے جیسے خطرناک قدرتی مظاہر کا مسلسل سامنا کر رہا ہے۔ ان ہلاکتوں میں مرد، خواتین اور بچے شامل ہیں، اور بہت سے دیہاتوں میں زندہ بچ جانے والے افراد آج بھی خیموں یا کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔اس قدرتی آفت کے بیچ ایک اور دل دہلا دینے والا حادثہ پیش آیا جب حکومت خیبرپختونخوا کا ایک ایم آئی-17 ہیلی کاپٹر، جو باجوڑ میں امدادی سامان لے کر جا رہا تھا، چنگی بانڈہ کے علاقے میں گر کر تباہ ہو گیا۔ اس حادثے میں دو پائلٹس سمیت پانچ افراد شہید ہو گئے۔ وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور نے اس افسوسناک واقعے پر صوبے میں ایک دن کے سوگ کا اعلان کیا۔ ہیلی کاپٹر کا گرنا ایک بار پھر اس بات کا ثبوت ہے کہ اس قسم کی ہنگامی صورتحال میں فضائی نقل و حرکت کس قدر مشکل اور خطرناک ہو سکتی ہے، خاص طور پر جب موسم اور جغرافیائی حالات معاون نہ ہوں۔بنیر، باجوڑ، سوات، مانسہرہ، بٹگرام، شانگلہ، دیر اور دیگر اضلاع ان بارشوں سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ بنیر میں نہ صرف انسانی جانوں کا نقصان ہوا بلکہ مکمل علاقے زیرِ آب آ گئے ہیں۔ پیر بابا بازار اور اس کے ملحقہ علاقوں میں پانی کی سطح اتنی بلند ہو چکی ہے کہ پورے علاقے ڈوب چکے ہیں۔ مکانات، مساجد، بازار اور مویشی سب کچھ پانی میں بہہ گیا ہے۔ سڑکیں ٹوٹ گئی ہیں، رابطے منقطع ہو چکے ہیں، اور کئی علاقوں میں تاحال ریسکیو ٹیمیں نہیں پہنچ سکیں۔بٹگرام میں بجلی گرنے کے واقعات میں 15 مرد جاں بحق ہو گئے جبکہ مانسہرہ، سوات، اور شانگلہ میں بھی اموات اور زخمیوں کی اطلاعات مسلسل موصول ہو رہی ہیں۔ نیل بند، سریم اور ملکل گلی جیسے دیہات میں بجلی گرنے اور بارشوں سے گھروں کی چھتیں گر گئیں، کئی خاندان ملبے تلے دب گئے، اور ریسکیو ٹیموں کو ان علاقوں تک پہنچنے کے لیے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بارش کی شدت، پہاڑی راستے، اور موبائل نیٹ ورک کی بندش جیسے عوامل امدادی کاموں میں بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔اسی دوران، ریسکیو 1122 اور دیگر اداروں کی خدمات قابل تحسین ضرور ہیں، مگر وہ بھی حالات کی شدت کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں۔ کئی ریسکیو اہلکار بارش میں تین تین گھنٹے پیدل چل کر متاثرہ علاقوں تک پہنچے۔ اس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ قدرتی آفت صرف بنیادی ڈھانچے کو ہی نہیں، بلکہ انسانوں کی سکت کو بھی چیلنج کر رہی ہے۔ایک اور پریشان کن بات یہ ہے کہ اس شدید بارش کے باوجود کئی علاقوں میں تاحال ایمرجنسی نافذ نہیں کی گئی۔ اگرچہ گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی نے اس ضرورت کا اعتراف کیا ہے، لیکن عملی طور پر کوئی نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا گیا۔ اس میں تاخیر قیمتی جانوں کے ضیاع کا باعث بن سکتی ہے۔ ایمرجنسی حالات میں بروقت فیصلہ سازی نہ صرف امدادی کاموں کو منظم کرنے میں مدد دیتی ہے بلکہ مقامی اور بین الاقوامی اداروں کو بھی متحرک ہونے کا جواز فراہم کرتی ہے۔ملک گیر سطح پر اگر دیکھا جائے تو نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (NDMA) کے مطابق 26 جون سے اب تک 325 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، جن میں 142 بچے شامل ہیں۔ 743 افراد زخمی ہوئے ہیں اور ہزاروں خاندان بے گھر ہو چکے ہیں۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی زمین کھسکنے، طوفانی بارشوں اور سیلابوں سے تباہی مچی ہوئی ہے۔ مظفرآباد میں ایک ہی گھر پر پہاڑی تودہ گرنے سے ایک پورا خاندان دب کر ہلاک ہو گیا، جبکہ باغ اور سدھنوتی میں بھی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔ گلگت بلتستان کے ضلع غذر میں آٹھ افراد جان کی بازی ہار گئے، اور دو تاحال لاپتہ ہیں۔یہ صورتحال صرف قدرتی نہیں بلکہ انسانی بے حسی کی داستان بھی بیان کرتی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات اگرچہ ایک عالمی حقیقت ہیں، لیکن ان کے اثرات سے نمٹنے کے لیے ہماری تیاری ناقص ہے۔ سالہا سال سے یہی علاقے بارشوں اور سیلابوں سے متاثر ہوتے آ رہے ہیں، مگر انفراسٹرکچر کی بہتری، نکاسی آب کے نظام کی درستگی، اور ہنگامی حالات سے نمٹنے کی حکمت عملی میں کوئی واضح بہتری نظر نہیں آتی۔حکومت کے لیے یہ وقت محض بیانات دینے یا دوروں کی تصاویر جاری کرنے کا نہیں، بلکہ سنجیدہ اقدامات اٹھانے کا ہے۔ سب سے پہلے، تمام متاثرہ اضلاع میں فوری طور پر ایمرجنسی نافذ کی جائے، اور وفاقی سطح پر NDMA، صوبائی حکومتوں، افواج اور ریسکیو اداروں کو مشترکہ طور پر امدادی سرگرمیوں میں شامل کیا جائے۔ متاثرہ علاقوں میں خیمہ بستیاں، موبائل ہسپتال، اور خوراک و ادویات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔دوسری جانب، مستقبل کے لیے ایک جامع اور موسمیاتی خطرات سے ہم آہنگ منصوبہ بندی ضروری ہے۔ یہ بات اب واضح ہو چکی ہے کہ خیبرپختونخوا جیسے پہاڑی علاقوں میں سالانہ بنیادوں پر ایسی آفات رونما ہوتی ہیں۔ اگر ہر سال یہی منظر نامہ دہرایا جاتا رہا، تو نہ صرف انسانی جانوں کا ضیاع جاری رہے گا بلکہ معاشی اور سماجی نظام بھی مفلوج ہو جائے گا۔اس سانحے سے سبق لینا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ ہمیں قدرت کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر جینا سیکھنا ہوگا۔ موسمیاتی تبدیلی کو سنجیدگی سے لینا ہوگا، اور اس کے خطرات کو کم کرنے کے لیے ماحولیاتی پالیسیاں، آفات سے بچاؤ کے منصوبے، اور مقامی سطح پر تربیت یافتہ رضاکاروں کی موجودگی کو یقینی بنانا ہوگا۔خیبرپختونخوا کے عوام نے ہر آفت میں اپنی بہادری، حوصلے اور جذبے سے دنیا کو متاثر کیا ہے۔ آج بھی وہ اسی ہمت سے کھڑے ہیں، مگر انہیں حکومت، سول سوسائٹی اور بین الاقوامی اداروں کی فوری اور مؤثر مدد کی ضرورت ہے۔یہ وقت ایک متحدہ قومی ردعمل کا ہے، اور اگر ہم نے اب بھی غفلت برتی، تو آنے والا وقت کہیں زیادہ بھیانک اور افسوسناک ہو سکتا ہے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں