آج کی تاریخ

پاکستان کرکٹ ،پہچان کا بحران اور زوال کی داستان

ویسٹ انڈیز کے خلاف حالیہ ون ڈے سیریز میں شکست صرف ایک کرکٹ سیریز کا خاتمہ نہیں، بلکہ پاکستانی کرکٹ کے ایک گہرے اور پیچیدہ بحران کا آئینہ دار واقعہ ہے۔ 34 سال بعد ویسٹ انڈیز نے پاکستان کو ون ڈے سیریز میں شکست دی، اور وہ بھی اس انداز میں کہ پاکستان کی فتح صرف پہلے میچ تک محدود ہو کر رہ گئی۔ بقیہ دونوں میچز میں قومی ٹیم کی کارکردگی ایسی تھی جیسے وہ کھیلنے کے لیے آئی ہی نہیں تھی۔
سیریز سے قبل یہ اطلاعات سامنے آئیں کہ پاکستان دراصل ون ڈے میچز کھیلنا ہی نہیں چاہتا تھا اور ان کی جگہ ٹی20 میچز کی خواہش رکھتا تھا، مگر میزبان ٹیم نے یہ مطالبہ مسترد کر دیا۔ اس پس منظر نے یہ تاثر مزید پختہ کیا کہ شاید ہماری ٹیم میدان میں مکمل تیاری، جذبے اور یکسوئی کے بغیر اتری۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کی ٹیم نے نہ صرف سیریز گنوائی بلکہ عزت بھی۔
مسلسل آٹھ میں سے سات ون ڈے میچز ہارنا اور کوچ کی تبدیلی کے باوجود کوئی مثبت تبدیلی نہ آنا اس بات کا ثبوت ہے کہ مسئلہ محض تکنیکی یا انتظامی نہیں، بلکہ گہرے سطح پر شناخت، وژن، اور سمت کی کمی کا ہے۔ ٹیم کی کارکردگی میں نہ تسلسل ہے، نہ جذبہ، اور نہ ہی کوئی ایسا بیٹنگ یا بولنگ یونٹ جو فتح کی ضمانت بن سکے۔
بیٹنگ کے شعبے میں حالت یہ رہی کہ فیصلہ کن تیسرے میچ میں اوپنرز صفر پر آؤٹ ہوئے اور پوری ٹیم 92 رنز پر ڈھیر ہو گئی۔ جن بلے بازوں پر ٹیم انحصار کرتی ہے—بابر اعظم اور محمد رضوان—وہ بھی صرف پہلے میچ میں کارگر ثابت ہوئے، جب کہ سیریز کے باقی دونوں میچز میں اُن کی کارکردگی مایوس کن رہی۔
کوچ کی جانب سے ’ڈیتھ اوورز‘ کی بولنگ پر سوالات بجا ہیں۔ سات اوورز میں 100 رنز دینا محض تکنیکی ناکامی نہیں، بلکہ ذہنی انتشار اور حکمت عملی کے فقدان کا مظہر ہے۔ یہ وہ لمحہ تھا جب ویسٹ انڈیز نے میچ کا پانسہ پلٹ دیا، اور پاکستان کی جانب سے کوئی مزاحمت دیکھنے میں نہ آئی۔
زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ ویسٹ انڈیز جیسے کمزور حریف، جو رینکنگ میں پاکستان سے کئی درجے نیچے تھے، وہ بھی آج پاکستان کے خلاف اپنی تاریخ کی بڑی فتح حاصل کر رہے ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ مسئلہ صرف کھلاڑیوں کی فارم کا نہیں، بلکہ ہمارے پورے کرکٹ سسٹم کی تنظیم، انتخاب، تیاری، اور طرزِ فکر میں بگاڑ پیدا ہو چکا ہے۔
کچھ مثبت اشارے ضرور ملے، جیسے حسن نواز اور حسین طلال کی نچلے نمبروں پر شاندار شراکت، لیکن چند جھلکیاں کسی ٹیم کی کمزوریوں کو نہیں چھپا سکتیں۔ ٹیم کی بقا، وقار اور کارکردگی کے لیے فوری طور پر بڑے فیصلے لینے کی ضرورت ہے۔
اب وقت آ چکا ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ اور ٹیم انتظامیہ خود احتسابی کا مظاہرہ کرے۔ قومی ٹیم کی تشکیل، کوچنگ پالیسی، کھلاڑیوں کی ذہنی تربیت اور منصوبہ بندی پر ازسر نو غور کیا جائے۔ صرف چہروں کی تبدیلی سے کچھ نہیں ہوگا—سوچ، ترجیحات، اور عزم کی تبدیلی ناگزیر ہے۔
ورلڈ کپ محض دو سال دور ہے، اور موجودہ صورتحال کا تسلسل ہمیں ایک اور عالمی سبکی سے دوچار کر سکتا ہے۔ قوم کی نظریں ایک مرتبہ پھر اپنی ٹیم پر ہیں، مگر اب صرف وعدے نہیں، نتائج مانگے جا رہے ہیں۔ اگر پاکستان کرکٹ نے خود کو نہ بدلا، تو دنیا بدل جائے گی—اور ہم ماضی کی فتوحات کے خوابوں میں ہی کھوئے رہیں گے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان کرکٹ مسلسل تنزلی کی جانب گامزن ہے، اور موجودہ سیریز میں ہونے والی شکست نے ان خامیوں کو بے نقاب کر دیا ہے جو عرصہ دراز سے نظر انداز کی جا رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کرکٹ صرف وقتی جوش، جزوی ٹیلنٹ، یا انفرادی کارکردگی پر انحصار کر کے آگے بڑھ سکتی ہے؟ کیا ہم بار بار یہی تجربہ کریں گے کہ ایک اچھا میچ جیت کر باقی سیزن کی ناکامیوں کو جواز فراہم کر دیں؟
ہمیں یہ مان لینا چاہیے کہ کرکٹ اب صرف ایک کھیل نہیں رہا—یہ ایک پیشہ ور، سائنسی، اور منظم کھیل بن چکا ہے جہاں ہر پہلو—کھلاڑی کی فٹنس، ذہنی تربیت، ڈیٹا اینالیسز، اور کھیل کی حکمت عملی—اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ دنیا کی دیگر ٹیمیں تیزی سے آگے بڑھ رہی ہیں، وہ نوجوان کھلاڑیوں کو تیار کر کے مواقع دے رہی ہیں، جدید ٹریننگ سہولیات سے فائدہ اٹھا رہی ہیں اور کرکٹ کو ایک پیشہ ور صنعت کے طور پر دیکھ رہی ہیں، جب کہ ہم ابھی تک روایتی سوچ میں پھنسے ہوئے ہیں۔
یہ بھی افسوسناک امر ہے کہ ٹیم میں اعتماد کا شدید فقدان نظر آتا ہے۔ جب اوپنرز پے در پے ناکام ہوں، مڈل آرڈر دباؤ میں بکھر جائے، اور سینئر کھلاڑی خود کو محدود دائرے میں بند کر لیں، تو یہ صرف تکنیکی نہیں، ایک ذہنی شکست کی علامت ہوتی ہے۔ ایسی صورتحال میں محض تنقید یا تبدیلیاں کافی نہیں، ایک مکمل ذہنی و تنظیمی تجدید درکار ہے۔
پاکستان کرکٹ کے بڑے مسائل میں سے ایک مسئلہ بااختیار اور مستقل مزاج قیادت کا فقدان ہے۔ جب ٹیم مینجمنٹ بار بار بدلی جائے، کوچز کو درمیان میں نکالا جائے، اور سلیکشن کا عمل شفاف نہ ہو، تو ٹیم میں استحکام کیسے آ سکتا ہے؟ ہمیں ایسے نظام کی ضرورت ہے جو کارکردگی کو بنیاد بنائے، ذاتی پسند و ناپسند سے بالاتر ہو، اور طویل المدتی منصوبہ بندی کے تحت چلے۔
اس کے ساتھ ساتھ، ڈومیسٹک کرکٹ کے نظام کو بھی جدید خطوط پر استوار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ جب تک کھلاڑی فرسٹ کلاس سطح پر سخت مقابلوں سے نہیں گزریں گے، بین الاقوامی سطح پر ان سے تسلسل کی توقع رکھنا غیر حقیقت پسندانہ ہوگا۔ ہر سال ڈومیسٹک فارمیٹ میں تبدیلی، مالی عدم تحفظ، اور نچلی سطح پر سہولیات کی کمی—یہ سب عوامل ہمارے کرکٹ کے زوال میں کردار ادا کر رہے ہیں۔
پاکستان کرکٹ کو اس وقت صرف “ری ایکشن” کی نہیں، “ویژن” کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایک ایسا طویل مدتی منصوبہ درکار ہے جس میں اگلے پانچ سے دس سال کے اہداف، ترجیحات اور عملی اقدامات واضح ہوں۔ ہمیں اپنی ٹیم کو صرف جیتنے کی نہیں، لڑنے کی، مزاحمت کرنے کی، اور وقار کے ساتھ شکست قبول کرنے کی تربیت دینا ہوگی—یہی وہ بنیاد ہے جس پر مستقل کامیاب ٹیمیں کھڑی کی جاتی ہیں۔
آخر میں، یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ کرکٹ محض 11 افراد کا کھیل نہیں، یہ ایک قومی جذبے کی علامت ہے۔ جب ٹیم جیتتی ہے تو پورا ملک جشن مناتا ہے، اور جب ہارتی ہے تو قوم کا حوصلہ ٹوٹتا ہے۔ اب وقت آ چکا ہے کہ ہم اس کھیل کو صرف میدان تک محدود نہ رکھیں، بلکہ اسے ایک قومی ادارے کی حیثیت دیں—جہاں شفافیت، میرٹ، اور اہلیت ہی اصل میراث ہوں۔

شیئر کریں

:مزید خبریں