آج کی تاریخ

اسرائیلی پالیسیوں پر تنقید اور یہود دشمنی کا بے بنیاد الزام

آج کی دنیا میں، خاص طور پر مغربی جمہوریتوں میں، اظہارِ رائے کا گلا گھونٹنے کا سب سے مؤثر طریقہ یہ بن چکا ہے کہ اسرائیل پر ہونے والی ہر تنقید کو فوراً یہود دشمنی (Anti-Semitism) سے تعبیر کر دیا جائے۔ یہ خطرناک رجحان صرف آزاد بحث کو محدود نہیں کرتا بلکہ سچی اور بروقت انسانی ہمدردی پر بھی قدغن لگا دیتا ہے۔ حالیہ دنوں یونان کے دارالحکومت ایتھنز کے میئر، ہاریس ڈوکاس، اور یونان میں اسرائیلی سفیر کے مابین ہونے والا تلخ تبادلہ اسی رجحان کا عکاس ہے۔
سفیر نے شکایت کی کہ اسرائیلی سیاح ایتھنز میں “منظم اقلیتوں” کی جانب سے بنائی گئی “یہود مخالف” وال چاکنگ سے خوفزدہ ہیں، اور میئر کی اس مسئلے پر “ناکامی” باعثِ تشویش ہے۔ جواب میں، میئر ڈوکاس نے نہ صرف ان الزامات کو مسترد کیا بلکہ بڑی دلیری سے اسرائیل کو آئینہ دکھایا کہ وہ دنیا کو جمہوریت کے سبق نہ دے جو خود نہتے فلسطینی شہریوں، خصوصاً بچوں، کو روز قتل کر رہا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ جب غزہ میں نسل کشی ہو رہی ہے، ایسے میں سفیر کا توجہ ہٹانے کے لیے دیواروں پر کیے گئے گرافیٹی کی شکایت کرنا نہایت منافقانہ رویہ ہے۔
یہ واقعہ اس بڑے مسئلے کی طرف نشاندہی کرتا ہے کہ کس طرح اسرائیل پر کی گئی کسی بھی سیاسی یا اخلاقی تنقید کو فوراً مذہبی نفرت کے خانے میں ڈال کر اس کی شدت کو کم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جب حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کی موجودہ جارحانہ اور نوآبادیاتی پالیسیوں پر تنقید، نہ صرف جائز ہے بلکہ انسانی ضمیر کا تقاضا بھی۔
غزہ میں گزشتہ برس 7 اکتوبر کے بعد سے جاری حملوں میں اب تک 60,800 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں بڑی تعداد بچوں کی ہے، جبکہ زخمیوں کی تعداد بھی ڈیڑھ لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ ان اعداد و شمار کے باوجود، مغربی حکومتیں اسرائیل پر تنقید کو ممنوع قرار دے کر انسانی حقوق کے مسئلے کو ایک حساس مذہبی بحث میں تبدیل کرنے پر تُلی ہوئی ہیں۔
اس رویے کے سنگین اثرات سامنے آ رہے ہیں۔ وہ ادارے، صحافی، یا انسانی حقوق کے کارکن جو اسرائیل کے جرائم پر آواز بلند کرتے ہیں، اُن پر “یہود دشمن” ہونے کا لیبل چسپاں کر دیا جاتا ہے۔ امریکہ، برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک میں ایسے قوانین سامنے آ چکے ہیں جو اسرائیل پر تنقید کو براہِ راست یہود دشمنی سے جوڑتے ہیں، جو نہ صرف اظہارِ رائے کی آزادی کے خلاف ہے بلکہ سچے انسانی ضمیر کو مجروح کرنے کے مترادف ہے۔
یہ امتیازی پالیسی نہ صرف فلسطینیوں کی آواز کو دبانے کی کوشش ہے، بلکہ اس کا دوسرا نقصان یہ ہے کہ حقیقی یہود دشمنی، جو یقیناً ایک ناقابلِ قبول رویہ ہے، اس کی سنگینی بھی اس سیاسی ہتھکنڈے کی وجہ سے کمزور پڑتی جا رہی ہے۔ اگر ہر سیاسی تنقید کو نسل پرستی قرار دے دیا جائے تو حقیقی نسل پرستی کی پہچان بھی دھندلا جائے گی۔
ایتھنز کے میئر کی جرات مندانہ پوزیشن اس بڑھتی ہوئی عالمی بیداری کی عکاس ہے جو اسرائیل کے ظلم پر خاموش رہنے کو ضمیر کی شکست سمجھتی ہے۔ دنیا بھر میں اب وہ آوازیں ابھر رہی ہیں جو یہ مطالبہ کرتی ہیں کہ اسرائیل کی پالیسیوں کو بین الاقوامی انسانی قانون کے تحت جانچا جائے، نہ کہ مذہبی عقیدت کے چشمے سے۔
یہ امر انتہائی اہم ہے کہ دنیا بھر میں آزادیٔ اظہار کو برقرار رکھا جائے—خاص طور پر ایسے وقت میں جب ایک پوری قوم کو اس کے گھروں سے بے دخل کر کے، مسلسل بمباری کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، اور بین الاقوامی برادری خاموشی سے تماشا دیکھ رہی ہے۔ فلسطینی عوام کا حق ہے کہ وہ ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں، اور دنیا کا بھی فرض ہے کہ وہ ان کی فریاد سنے۔
اختتامیہ کے طور پر یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اگر اسرائیل پر تنقید کو یہود دشمنی سمجھا جانے لگا تو نہ صرف فلسطینیوں کے لیے انصاف کا دروازہ بند ہو جائے گا، بلکہ دنیا جمہوریت، انسانی حقوق، اور سچائی کے ان اصولوں سے بھی منہ موڑ لے گی جن پر وہ خود کو فخر سے قائم سمجھتی ہے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں