تحریر : ڈاکٹر ظفر چوہدری
میں پچھلے کالموں میں اپنی کھیلوں میں بہت زیادہ شرکت اور شرارتوں کے بارے میں بتا چکا ہوں۔جس کی وجہ سے تعلیم کے معاملے میں میری کارکردگی اچھی نہیں تھی۔اس کے علاوہ میرے نانا کے لاڈ پیار نے مجھے کچھ زیادہ بگاڑدیا تھا۔ میرے نانا بڑے دبنگ قسم کے چوہدری تھے۔ انڈیا میں وہ اپنے قبیلے کے غیر متنازعہ چوہدری تھے۔ 68-1967میں بڑے زمینداروں کے بچوں کو بھی زیادہ سے زیادہ چند روپے جیب خرچ ملتا تھا ۔مگر مجھے نانا ابو100روپے بھی دے دیتے تھے جوکہ اس زمانے میں عام سرکاری ملازم تنخواہ کے برابر تھے ۔والد صاحب بنیادی طور پر شفیق اور شریف انسان تھے وہ مجھے پڑھائی پر توجہ دینے کی ہدایت ضرور کرتے مگر سختی نہیں کرتے تھے۔آٹھویں جماعت میں جو طلباتعلیمی لحاظسے بہتر ہوتے انہیں بورڈ کے امتحان میں بھیجا جاتا تھا۔جسے وظیفہ کا امتحان کہتے تھے۔باقی طلبا سے ہائی سکول میں سالانہ امتحان لیا جاتا تھا۔سکول کے سالانہ امتحان میں مجھے رعا ئتی پاس کیا گیاجسے آجکل Grac Mark کہتے ہیں۔جب نویں جماعت میں پہنچا تو ہمارے انچارج ماسٹر اعجاز حسین شاہ صاحب تھے۔سائنس کے استاد عبدالعزیز خان صاحب کوٹ ادوسے تعلق رکھتے تھے۔بڑے ذہین اور صاف گو اوراپنے مضامین کے ماہر سمجھے جاتے تھے۔ان کا رویہ بڑا غیر روائتی ہوتا تھا۔اپنے شاگردوں پر رعب یادہشت نہیں ڈالتے تھے ۔واحد استاد تھے جن کے پاس ایک پرانی موٹر سائیکل بھی ہوتی تھی ۔ان کی کئی باتیں مشہور تھیں مثلا ایک بار ہیڈ ماسٹر صاحب نے انہیں کہا کہ آپ کی کلاس کے60فیصد لڑکے فیل ہوگئے ہیں تو انہوں نے جواب دیا جو پاس ہوئے ہیں وہ آپ نے تونہیں پڑھائے تھے ۔پہلی ہی کلاس میں ماسٹر عبدالعزیز خان صاحب نے سب طلبا سے کہا کہ اپنا تعارف کروائیں ۔جب میں نے اپنا تعارف کرایا تو پوچھا کہ تم نے ہری پگڑیوں والےگھڑ سواروں کے بارے میں 1965 اور1967 کی جنگوں کے حوالے سے فلا ں استاد سے سوال کیا تھا تو اس نےتمہیں ڈانٹ دیا تھا ۔میںنے کہا جی ہاں تو انہوں نے کہا کہ اسرائیل کو فتح اس لئے ہو ئی ہے کہ تمام یہودی ایک جگہ اکٹھے ہوجائیں تاکہ انہیں ایک ساتھ ماردیا جائے۔اس کے بعد انہوں نے کہا کہ ظفر دسویں جماعت کے امتحان میں سکول میں اول آئے گا۔ جس پر تمام کلاس فیلو ہنس پڑے مگر ہر وقت خوشگوار انداز میں پڑھانے والے ماسٹر عبدالعزیز خان سنجیدہ رہے۔اس کے ساتھ ہی ہماری جماعت کے انچارج اعجاز حسین شاہ صاحب نے کلاس کو چار حصوں میں تقسیم کردیا تھا۔نمبر 1شودر ،جسےعام زبان چوڑے چمار کہا جاتا ہے نمبر2،ویش جسے عام طور پر کمی کمین کہتے ہیں جن نائی تیلی درکھان میراثی وغیرہ ہوئے ہیں نمبر 3،کشتری پاکھتری جوکہ ہندوکی لڑاکا ذات ہے۔ نمبر 4،برہمن جوکہ ہند ومیں سب سے اعلیٰ ذات سمجھی جاتی ہے۔آرایائی نے5ہزار سال پہلے جب ہندوستان پر قبضہ کیا تو اسے ذات پات کے نظام میں جکڑ دیا۔ہندوستان کے اصل باشندے دراوڑین تھے انہیں شودر بنا کر نچلی ذات بنا دیا گیا اور بتایا کہ شور بھگوان کے پاؤں سے پیدا ہوا ہے لہزا پائوں میں پڑا رہے ۔ویش بھگوان ان کے ہاتھوں پاؤں میں پیدا ہوا ہے اس لئے وہ کام کرتا رہے۔کشتر ئی پیٹھ سے پیدا ہوا ہے وہ جنگجو ہے اور برہمن بھگوان کے منہ سے پیدا ہوا ہے اس لئے تعلیم یعنی مذہبی تعلیم اس کے ذمہ ہے اور وہ سب سے اعلیٰ نسل ہے بھگوان کی اورمیری بدقسمتی دیکھئے مجھے شودروں میں بٹھا دیا گیا۔یہ تقسیم اعجاز حسین شاہ صاحب نے تعلیمی ا ستطاعت کے مطابق کی تھی جس کا میں حق دار تھا۔ (جاری ہے)