آج کی تاریخ

بیانیے اور بانیوں کی کرشمہ سازی

شرارتیں

تحریر:ڈاکٹر ظفر چوہدری

میں بچپن سے ہی شرارتی سمجھا جاتا تھا جس کا مجھے خمیازہ بھی بھگتنا پڑا۔اس زمانے میں آم‘جامن اور مالٹے چوری سےتوڑنا ہمارے لئے ایڈونچر ہوتا تھا۔میں اپنے چار پانچ ساتھیوں کےساتھ یہ کام کرتاتھا ۔اکثر مواقع پر گروہ کی قیادت میری ذمہ داری ہوتی تھی۔عیدگاہ کے آم کے درخت سے کچے آم توڑنا اور پھر عید گاہ میں موجود ایک مولوی صاحب کا ہمارے پیچھے دوڑنا ہمیں بہت پسند تھا ۔کیونکہ اپنے وزن کی وجہ سے ہمیں پکڑ تو نہیں سکتے تھے مگر صلواتیں خوب سناتے تھے ۔ایک دفعہ میں جامن کے درخت پر چڑھ کر جامن توڑ کر نیچے اور ہمراہیوں کی طرف پھینک رہا تھا کہ بھیڑوں کے چھتے میں موجود پیلی بھیڑوں نے مجھ پر حملہ کردیا۔زیادہ تر میرے چہرے پر کاٹ لیا اورمیں جامن کے درخت سے گرا اور اللہ کا شکر ہے نیچے نہر تھی اورپانی میں گرنے کی وجہ سے زیادہ چوٹ تو نہیں آئی مگر میرا چہرہ اتنا سوج گیا کہ میں دو ماہ تک دیکھنے کے قابل نہ رہا۔اس طرح میں نے دوماہ ایک اندھے کے طور پر گزارے میری نانی آماں نے میرا دن رات خیال رکھا وہ تو شکر ہے کہ گرمیوں کی چھٹیاں تھیں ‘سکول نہیں جانا پڑا‘ دوماہ بعد میں دیکھنے کے قابل تو ہوگیا مگر دونوں آنکھوں میں آنسوٹائپ موادرہتا اور صبح دونوں آنکھیں چپک جاتیں اور آہستہ آہستہ میں آنکھیں کھولتا۔والد صاحب نے ماہر ڈاکٹروں سے علاج بھی کروایا آخر کار گوجرہ میں ڈاکٹر ذکا اللہ نے کہا کہ جس طرح یہ بڑا ہوگیا خود بخود آنکھیں ٹھیک ہوتی جائیں گی اور ایسا ہی ہوا ۔اس دوران میری آنکھوں پر دیسی ٹوٹکے بھی آزمائے گئے جس کا والد صاحب کو علم نہیں ہوتا تھا ۔ایک مجھے یاد ہے جس طرح سپیرااپنی پٹاری میں سانپ رکھتے تھے ۔اسی طرح کچھ سنیاسی ٹائپ لوگ کے پاس جو نکیں بھی ہوتی تھیں ۔یہ جونکیں بقول ان سنیاسیوں کے جسم سے زہریلا خون چوس لیتی ہیں اور مریض صحت مند ہوجاتا ہے ۔بدقسمتی سے میری خالہ نے کسی سنیاسی سے مجھے بھی آنکھوں میں جونکیں لگوائیں ۔آنکھیں تو ویسی ہی رہیں مگر سنیاسی کی دہاڑی لگ گئی۔عام طور پر اس عمل سے اکثر لوگوں کو انفیکشن ہوجاتی تھی ۔خوش قسمتی سے آنکھیں مزید خراب نہیں ہوئیں۔جب میں میڈیکل کالج میں داخل ہوا اس وقت تک آنکھیں ٹھیک ہوگئیں تھیں ۔میری والدہ کو یقین تھا کہ مجھے کسی کی نظر کھا گئی ہے ۔کیونکہ میری آنکھیں کافی بڑی تھیں میں نے والدہ کو تو نہیں بتایا مگر مجھے یاد ہے اس حادثہ سے چند دن پہلے کسی آدمی نے کہا تھا کہ ہیں بال دے ڈیلے‘ڈیٹھے بن کنے وڈے ہن اس بچے کی آنکھیں دیکھی ہیں کتنی بڑی ہیں۔یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ نظر لگی تھی یا نہیں مگر آج بھی لوگ نظر لگنے پریقین رکھتے ہیںیہاں تک بھی کہتے ہیں کہ نظر تو پہاڑ کو بھی پھاڑدیتی ہے۔کتنے افسوس کی بات ہے55سال پہلے دیہی علاقوں میں جو صحت کی سہولیات میسر تھیں ان میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا۔آج بھی سنیاسی ‘نیم حکیم اورنان کوالیفائیڈڈاکٹر زکو غریب عوام بھگت رہے ہیں۔

شیئر کریں

:مزید خبریں