آج کی تاریخ

غزہ : بے حسی کی ثقافت اور بے ضمیری کا راج

تم مجھے خواب دیکھنے والا کہہ سکتے ہو، لیکن میں اکیلا نہیں ہوں…”
جان لینن کا یہ مصرع گویا ایک ایسی دنیا کا نقشہ کھینچتا ہے جہاں طاقت کا قانون نہیں، انصاف کا راج ہوتا ہے۔ جہاں کسی قوم کو اپنی زمین پر جینے کے لیے اجازت نامہ نہیں لینا پڑتا، اور جہاں بچوں کی ہنسی توپوں کے دہانے سے بلند ہوتی ہے۔ لیکن آج غزہ کی سرزمین پر، یہ خواب ٹوٹے ہوئے شیشوں کی طرح ہر گلی میں بکھرے پڑے ہیں۔ خون، ملبہ اور بھوک کے بیچ، خواب دیکھنا اب بھی جرم نہیں — مگر جرم یہ ہے کہ دنیا اس جرم کو جرم نہیں مانتی۔غزہ پر جب ہم طاقتور حکومتوں کی “زبانی جمع خرچ ” کی پالیسی اور مسلم ممالک کے حکمرانوں کی مگرمچھ کے آنسو بہانے والی ” روش دیکھتے ہیں تو بے اختیار یہ مصرعہ ثانی زبان پہ آتا ہےہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہوگا ۔ اسرائیل اس وقت غزہ شہر کو مکمل نگلنے کی تیاری میں ہے۔ تباہ حال بستیوں، بھوک سے بلکتے بچوں اور ملبے تلے دبی عورتوں کے بیچ، یہ منصوبہ ایک ایسے المیے کا اعلان ہے جس کی انتہا ابھی نہیں آئی۔ دنیا میں زبانی مذمت کے گونجتے نعرے ضرور ہیں، لیکن یہ نعرے گولیوں کی آواز کے سامنے دم توڑ دیتے ہیں۔ تاریخ نے بارہا بتایا ہے کہ ظالم کو الفاظ نہیں، دیوار کی طرح مضبوط مزاحمت روکتی ہے — اور وہ دیوار آج بھی تعمیر نہیں ہوئی۔بدقسمتی یہ ہے کہ اس دیوار کے سب سے بڑے معمار بننے والے مسلم اور عرب ممالک محض اینٹوں کی گنتی میں مصروف ہیں۔ انہوں نے اپنے کاغذی بیانات سے فلسطینیوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کی، لیکن یہ مرہم صرف کاغذ کو نرم کر سکتا ہے، زخم کو نہیں۔ سفارتی ہالوں میں افسوس کے بیانات اور خاموش اجلاس اس وقت ایک بھی بچے کو زندگی واپس نہیں دے سکتے۔ اس کے برعکس، انہی ممالک میں سے کچھ اسرائیل کے ساتھ اربوں ڈالر کے تجارتی معاہدے کر رہے ہیں، جیسے فلسطینیوں کے خون پر سیاہی سے نہیں، تیل اور گیس سے دستخط کیے جا رہے ہوں۔یہ رویہ محض سیاسی بے حسی نہیں، بلکہ تاریخ کے سامنے کھلا اعتراف ہے کہ ہم نے ضمیر بیچ کر خاموشی خرید لی ہے۔ ایک طرف غزہ کی زمین کو بارود سے ہموار کیا جا رہا ہے، اور دوسری طرف اسی بارود کے خریدار ہم خود ہیں۔ یہ کیسا اتحادِ امت ہے جس کی بنیاد تجارتی مفاد پر ہے، اور جس میں مظلوم کی جگہ خریدار اور بیچنے والے کی پہچان زیادہ اہم ہو گئی ہے؟دوسری طرف، مغربی دنیا کے عام شہری — وہ جن کا فلسطین سے کوئی لسانی، جغرافیائی یا مذہبی رشتہ نہیں — لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر اتر رہے ہیں۔ لندن، سڈنی، نیویارک اور پیرس میں Not in our nameکے نعروں نے بتا دیا کہ ضمیر بیدار ہونے کے لیے قومیت کی شرط نہیں ہوتی۔ جبکہ ہم، جن کے ایمان اور تاریخ کا ایک حصہ ہی بیت المقدس کے سایے میں پروان چڑھا، محض خاموش تماشائی ہیں۔کچھ غیر مسلم ممالک نے تو وہ کر دکھایا جو ہم نہ کر سکے۔ بولیویا نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات توڑ دیے، اور جنوبی افریقہ نے عالمی عدالت انصاف میں اسرائیل پر نسل کشی کا مقدمہ کر دیا۔ انہوں نے دکھا دیا کہ جب انسانیت جاگتی ہے تو سرحدیں، نسلیں اور زبانیں رکاوٹ نہیں بنتیں۔ یہ وہ مثالیں ہیں جو مسلم دنیا کے ضمیر پر سب سے بھاری فردِ جرم ہیں۔
اسرائیل کا نیا منصوبہ — غزہ میں “سکیورٹی پَیریمیٹر” اور “متبادل شہری انتظامیہ” — دراصل فلسطین کے سیاسی ڈھانچے کو توڑ کر قبضے کو قانونی لبادہ پہنانے کی کوشش ہے۔ یہ انتظامیہ نہ حماس ہوگی، نہ فلسطینی اتھارٹی، بلکہ اسرائیل کے ہاتھوں کی کٹھ پتلیاں، جن کا کام غزہ کے وسائل لوٹنا اور عوام کو مزید غلامی میں دھکیلنا ہوگا۔ اس منصوبے کا مطلب ہے کہ غزہ کی خودمختاری ہمیشہ کے لیے دفن کر دی جائے۔اب سوال یہ ہے کہ مسلم دنیا کس کا انتظار کر رہی ہے؟ مزید قبرستان بننے کا؟ مزید بچے بھوک سے مرنے کا؟ یا پھر اسرائیلی ٹینکوں کے مکہ و مدینہ کے قریب پہنچنے کا؟ تاریخ کا سبق یہی ہے کہ ظلم جب ایک جگہ مضبوط ہوتا ہے تو وہ سرحدوں کا احترام نہیں کرتا۔ آج غزہ ہے، کل کوئی اور۔اگر واقعی ہم فلسطینی عوام کے ساتھ ہیں تو ہمیں صرف بیانات نہیں، عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ اسرائیل پر عالمی سطح پر ہتھیاروں اور تجارت کی پابندی ہی وہ پہلا قدم ہے جو اس کی جنگی مشین کو روک سکتا ہے۔ اس پابندی کی قیادت مسلم اور عرب ممالک کو کرنی چاہیے — ورنہ ہم خود اپنے ہاتھوں سے ظالم کو تلوار دیتے رہیں گے اور پھر اپنے ہی زخموں پر تعجب کریں گے۔
یہ لمحہ تاریخ کا سب سے بڑا اخلاقی امتحان ہے۔ یا تو ہم مظلوم کے ساتھ کھڑے ہوں، یا پھر اپنی خاموشی سے ظالم کے قافلے میں شامل ہو جائیں۔ خاموشی، دراصل جرم میں شراکت داری ہے۔ یہ شراکت داری ہمیں بھی اسی کٹہرے میں لا کھڑا کرے گی جہاں آج اسرائیل کھڑا ہے۔
جان لینن کا خواب ایک ایسی دنیا کا تھا جہاں کوئی طاقت کسی دوسرے پر قبضہ نہیں کرتی۔ فلسطینی عوام بھی یہی خواب دیکھتے ہیں — کہ وہ اپنی زمین پر آزاد اور محفوظ زندگی گزار سکیں۔ خواب دیکھنا جرم نہیں، لیکن آج کی دنیا میں اس خواب کی قیمت خون سے ادا کی جا رہی ہے۔ اگر ہم نے اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کی کوشش نہ کی تو ہماری آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔
آج وقت ہے کہ ہم خواب کو نعرہ، نعرے کو منصوبہ، اور منصوبے کو عمل میں بدلیں۔ ورنہ تاریخ لکھے گی کہ جب غزہ جل رہا تھا، ہم محض تماشائی تھے — اور تماشائی ہمیشہ قصوروار ہوتے ہیں۔ تاریخ میں آج تک یہ فقرہ “نیرو” کے لیے سخت تازیانے جیسا درج ہے “روم جل رہا تھا ، نیرو بانسری بجا رہا تھا”

دائروں کا سفر

پاکستان کے یوم آزادی میں محض دو دن باقی ہیں ۔ اور آج بھی اخبارات کی شہ سرخیاں چیخ رہی ہیں کہ پاکستان کی انسداد دہشت گردی کی ایک تیسری عدالت نے 9 مئی 2023ء کے واقعات کو لیکر حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت کےپانچ رہنماؤں کو 10 سال قید بامشقت سنائی ہے۔ بین الاقوامی اور ملکی قانونی برادری کی اکثریت کی رائے میں عدالتوں کے یہ فیصلے قانون اور انصاف کے تقاضوں کے منافی ہیں ۔ ریاست کبھی ایک عہد کا خواب ہوا کرتی تھی — ایک ایسا معاہدہ جو شہری اور ریاست کے درمیان باہمی اعتماد پر کھڑا ہوتا ہے، جہاں آئین صرف کتاب کے اوراق پر نہیں، بلکہ روزمرہ زندگی میں سانس لیتا ہے۔ لیکن یہ خواب اب ایک ایسے دائرے میں قید ہے جس کا ہر چکر ہمیں پیچھے لے جا رہا ہے۔ ہم نے جمہوریت کا ہالہ اوڑھ رکھا ہے، مگر اس کے نیچے جبر اور استبداد کی سخت، دھات کی حقیقت چھپی ہے۔
آئین کی کتاب میں شہری اور سیاسی آزادیوں کے روشن باب آج بھی موجود ہیں، لیکن ان کا عملی نفاذ ایک ماضی کی کہانی بن چکا ہے۔ کاغذ پر درج حقوق اب صرف عدالتوں میں حوالہ دینے کے لیے رہ گئے ہیں، روزمرہ کی زندگی میں ان کی موجودگی تقریباً غائب ہے۔ ہم ایک ایسے نظام میں جی رہے ہیں جہاں اختیارات کا مرکز محض ایک طاقتور دائرہ ہے — بند، خود کفیل، اور اپنی بقا کے لیے ہر اختلاف کو کچل دینے پر آمادہ۔حالیہ فیصلے میں ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کے دونوں ایوانوں کے رہنماؤں کو دس سال قید کی سزا سنانا، اور درجنوں دیگر اراکین کو نااہل کرنا، بظاہر ایک عدالتی عمل لگ سکتا ہے، لیکن اس کے پیچھے طاقت کا وہی پرانا کھیل جھلکتا ہے جو اختلافِ رائے کو خطرہ سمجھتا ہے۔ اس فیصلے کی زبان، منطق اور شواہد کا معیار اگر کسی اور ملک کے تناظر میں بیان کیا جائے تو یہ سیدھا سیدھا ایک مطلق العنان حکومت کا ہتھکنڈہ محسوس ہوگا — ایسا ہتھکنڈہ جو عوام کی رائے، ان کی اجتماعی بصیرت اور ان کے حقِ احتجاج کو اپنی بقا کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔فیصلے کے متن میں وہی رویہ جھلکتا ہے جو شہری کو آزاد فرد نہیں بلکہ ایک ہجوم کا بھیڑ سمجھتا ہے، جو محض “کہنے پر” مشتعل ہو سکتا ہے۔ سوشل میڈیا کلپس، غیر تصدیق شدہ بیانات، اور مبہم “خفیہ ذرائع” اس مقدمے کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ بعض گواہ ایسے ہیں جن کی موجودگی اور سننے کے دعوے عقل اور حقیقت کے بنیادی اصولوں سے متصادم ہیں — جیسے پردوں کے پیچھے یا میز کے نیچے چھپ کر کسی خفیہ میٹنگ کا سن لینا۔ اس طرح کے شواہد ایک معمولی مقدمے میں بھی کمزور سمجھے جاتے، چہ جائیکہ ایک ایسے کیس میں جس کے نتائج پورے ملک کی سیاسی سمت بدل سکتے ہیں۔
یہ صرف ایک جماعت یا چند رہنماؤں کا معاملہ نہیں۔ یہ سوال ہے کہ آج اگر ریاست، قانون اور عدالتیں مل کر کسی بڑے سیاسی گروہ کو اس طرح جیل بھیج سکتی ہیں، تو کل کو یہی فارمولہ کسی بھی شہری پر لاگو ہو سکتا ہے۔ ایک بار جب اصول کمزور پڑ جائیں تو وہ سب کے لیے کمزور ہوتے ہیں، چاہے ہم اس وقت خاموش تماشائی کیوں نہ ہوں۔فیصلے میں ماضی کے نوآبادیاتی قوانین اور 1857 کی جنگِ آزادی جیسے تاریخی حوالوں کا استعمال نہ صرف قانونی کمزوری کو چھپانے کی ناکام کوشش ہے بلکہ یہ غیر شعوری طور پر موجودہ ریاستی رویے کو برطانوی راج کے طرزِ حکمرانی سے تشبیہ دے دیتا ہے — ایک ایسا طرزِ عمل جو رعایا کو قابو میں رکھنے کے لیے قوانین کا ہتھیار بناتا تھا، نہ کہ انصاف کا۔
یہ “دائروں کا سفر” محض سیاسی نہیں بلکہ فکری اور اخلاقی قید بھی ہے۔ ہم بار بار اسی دائرے میں پھنس جاتے ہیں جہاں طاقتور کو جواب دہی سے استثنا حاصل ہے، اور کمزور کو قانون کے نام پر کچل دیا جاتا ہے۔ یہ سفر کسی منزل کی طرف نہیں جاتا، صرف ایک بند گھیرا ہے جو ہر چکر کے ساتھ ہمیں جمہوریت سے مزید دور اور مطلق العنانیت کے مرکز کے قریب لے آتا ہے۔
اصل خطرہ یہ ہے کہ جب ایک ریاست اپنے شہریوں کو یہ باور کروا دے کہ ان کی رائے، ان کا احتجاج، اور ان کی آزادی محض حکمران کے موڈ اور عدالت کی مرضی کے تابع ہے، تو پھر آئین کا وجود بھی محض ایک رسمی تعویذ رہ جاتا ہے — مقدس ضرور، مگر بے اثر۔اگر اس دائرے کو توڑنا ہے تو ضروری ہے کہ ہم اس خاموشی کو توڑیں جو ہر غیر منصفانہ فیصلے کے بعد مزید گہری ہو جاتی ہے۔ ورنہ ہم سب ایک دن اسی کٹہرے میں کھڑے ہوں گے جہاں آج وہ کھڑے ہیں، اور تب شاید کوئی بھی باقی نہ بچے جو ہمارے لیے آواز اٹھا سکے۔دائرے ہمیشہ بند رہتے ہیں، جب تک کوئی اس میں شگاف ڈالنے کی ہمت نہ کرے۔ ریاستی جبر کے اس دائرے کو توڑنا محض ایک سیاسی چیلنج نہیں، یہ فکری اور اخلاقی بیداری کا امتحان بھی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم اس جبر کے خلاف کیا کر سکتے ہیں جب طاقت کا مرکز ہر اختلاف کو دبا دینے پر قادر ہو، اور آئین کے وعدے محض رسمی عبارتوں میں قید ہوں؟پہلا قدم یہ ہے کہ ہم اس خاموشی کو قبول کرنے سے انکار کریں جو جبر کو طاقت دیتی ہے۔ خاموش شہری، طاقتور ظالم کے لیے سب سے قیمتی تحفہ ہیں۔ جب لوگ غیر منصفانہ فیصلوں کو “یہ تو چلتا رہتا ہے” کہہ کر نظر انداز کر دیتے ہیں، تو یہی رویہ طاقتور کو مزید بے خوف کر دیتا ہے۔ ہمیں اپنی گفتگو، تحریر اور اجتماعی مکالمے میں یہ واضح کرنا ہوگا کہ قانون سب کے لیے برابر ہے — اور جب یہ توازن ٹوٹتا ہے، تو یہ سب کو نقصان پہنچاتا ہے، چاہے وہ کسی بھی جماعت یا نظریے سے تعلق رکھتے ہوں۔
دوسرا قدم ادارہ جاتی اصلاح ہے۔ عدلیہ، پارلیمان، میڈیا اور انتظامیہ — یہ سب جمہوری دائرے کے ستون ہیں۔ لیکن جب یہ ستون خود طاقت کے حلقے میں قید ہو جائیں تو پورا ڈھانچہ کھوکھلا ہو جاتا ہے۔ عدلیہ کو اپنی ساکھ بچانے کے لیے فیصلوں میں شفافیت اور شواہد کی سخت جانچ کا معیار اپنانا ہوگا۔ پارلیمان کو اپنی نمائندگی کا حق واپس لینے کے لیے متحد ہونا ہوگا، چاہے اس اتحاد میں وقتی سیاسی مفادات قربان کیوں نہ کرنے پڑیں۔ میڈیا کو خبر بیچنے کے بجائے سچ دکھانے کا عزم کرنا ہوگا، چاہے اس کے لیے اپنی بقا خطرے میں ڈالنی پڑے۔تیسرا قدم شہری شعور کی بیداری ہے۔ عوام کو یہ سمجھنا ہوگا کہ جمہوریت محض ووٹ ڈالنے کا نام نہیں، بلکہ مسلسل نگرانی اور سوال اٹھانے کا عمل ہے۔ اگر آپ کسی دن اپنے حقِ رائے دہی کا استعمال کر کے مطمئن ہو جاتے ہیں اور اگلے پانچ سال خاموش رہتے ہیں، تو آپ خود اس دائرے کی مضبوطی میں حصہ ڈال رہے ہیں۔ یہ شعور پیدا کرنے کے لیے تعلیمی نصاب، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور عوامی فورمز کو فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔چوتھا قدم طاقت کے غیر متوازن ڈھانچے کو چیلنج کرنا ہے۔ جب اختیارات ایک ہی مرکز میں جمع ہو جائیں، تو وہ مرکز جمہوریت نہیں رہتا، بلکہ ایک قلعہ بن جاتا ہے جو شہریوں کو رعایا میں بدل دیتا ہے۔ اس ڈھانچے کو توڑنے کے لیے اختیارات کی تقسیم، شفاف احتساب، اور مقامی حکومتوں کا مضبوط نظام ضروری ہے تاکہ عوام کی آواز نچلی سطح سے اوپر تک پہنچ سکے۔آخری اور سب سے اہم قدم یہ ہے کہ ہم خود کو سیاسی اور نظریاتی خانوں سے باہر نکالیں۔ یہ لڑائی صرف ایک جماعت یا ایک نظریے کے لیے نہیں ہے، یہ ہر اس شخص کے لیے ہے جو اپنے حقِ آزادی، حقِ اختلاف اور حقِ انصاف پر یقین رکھتا ہے۔ اگر ہم اسے “ان کا مسئلہ” سمجھ کر الگ ہو جائیں تو جلد ہی یہ “ہمارا مسئلہ” بن جائے گا، اور تب شاید بہت دیر ہو چکی ہو۔دائرے کو توڑنے کے لیے ہتھیار ہمیشہ بارود نہیں ہوتے — بعض اوقات وہ سوالات ہوتے ہیں، کبھی اجتماعی شعور، اور کبھی وہ اجتماعی قدم جو ایک معاشرہ ظلم کے خلاف اٹھاتا ہے۔ اگر ہم نے یہ قدم نہ اٹھایا تو “دائروں کا سفر” ایک ایسے جبر میں بدل جائے گا جہاں ہر آنے والی نسل کو یہی بند گھیرا وراثت میں ملے گا۔
یہ سفر ختم کرنے کے لیے ہمیں تاریخ کے اس موڑ پر فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم رعایا بن کر زندہ رہنا چاہتے ہیں یا شہری بن کر۔ رعایا کا کام صرف حکم ماننا ہے، شہری کا کام سوال اٹھانا۔ اور تاریخ نے ہمیشہ انہی کو یاد رکھا ہے جنہوں نے سوال اٹھانے کی ہمت کی۔

سبز مستقبل کی جانب ایک مثبت قدم

حکومتِ پاکستان کی جانب سے ای بائیکس اور ای رکشوں کے لیے 100 ارب روپے کی سبسڈی اسکیم کا اعلان ملک میں ماحولیاتی بہتری، توانائی کی بچت اور پائیدار ٹرانسپورٹ کے فروغ کی سمت ایک خوش آئند اور دور اندیش اقدام ہے۔ پانچ سال کے دوران 1,16,000 ای بائیکس اور 3,170 ای رکشوں کی تقسیم کا منصوبہ نہ صرف فضائی آلودگی میں کمی کا باعث بنے گا بلکہ درآمدی تیل پر انحصار کم کر کے قومی معیشت کو بھی سہارا دے گا۔اس اسکیم کی سب سے بڑی خوبی اس کا خود کفیل مالیاتی ڈھانچہ ہے۔ پیٹرول سے چلنے والی گاڑیوں کی فروخت پر 1 سے 3 فیصد ای وہیکل ایڈاپشن لیوی کے نفاذ سے حاصل ہونے والے 122 ارب روپے اس سبسڈی کے لیے استعمال ہوں گے۔ اس طرح ماحولیاتی اہداف اور معاشی تقاضوں کو بیک وقت پورا کرنے کی حکومتی سوچ واضح ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ ای بائیکس کے لیے 2 لاکھ روپے اور ای رکشوں کے لیے 8 لاکھ 80 ہزار روپے تک کے بلاسود قرضے، سرکاری ضمانت اور سبسڈی کے ساتھ فراہم کیے جائیں گے، جس سے بالخصوص نوجوانوں، کم آمدنی والے طبقے اور روزگار کے لیے دو اور تین پہیوں پر انحصار کرنے والوں کو فائدہ پہنچے گا۔شمولیت اور سماجی توازن اس منصوبے کا اہم پہلو ہے۔ خواتین، طلبہ اور بلوچستان کے پسماندہ طبقات کے لیے خصوصی کوٹے اس بات کا اظہار ہیں کہ برقی ٹرانسپورٹ کی سہولت کو صرف بڑے شہروں یا مخصوص طبقوں تک محدود رکھنے کے بجائے اسے وسیع پیمانے پر عام کرنے کا عزم موجود ہے۔ یہ نہ صرف مساوات کے اصول کے مطابق ہے بلکہ پائیدار ترقی کے عالمی اہداف سے بھی ہم آہنگ ہے۔یقیناً یہ اسکیم ملک میں ای وی ٹرانسپورٹ کے فروغ کا ایک مضبوط آغاز ہے، تاہم 2030 تک نئی گاڑیوں کی فروخت میں 30 فیصد کو برقی گاڑیوں میں تبدیل کرنے کے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے مزید جامع حکمت عملی درکار ہے۔ چارجنگ انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری، بجلی کے گرڈ کی تیاری، مقامی گاڑی اور بیٹری سازی کی صنعت کے لیے مراعات، اور صارفین کے لیے مالیاتی سہولتوں کی فراہمی اس سمت میں اگلے ضروری اقدامات ہیں۔فی الحال یہ خوشی کی بات ہے کہ حکومت نے ای بائیکس اور ای رکشوں کی سبسڈی کے لیے پیٹرول سے چلنے والی گاڑیوں پر ٹیکس لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ تاہم یہ یقین دہانی ضروری ہے کہ یہ فنڈز صرف متوسط اور کم آمدنی والے طبقے کے لیے دو اور تین پہیہ برقی گاڑیاں سستی کرنے پر ہی استعمال ہوں، نہ کہ مہنگی برقی کاروں کی قیمت کم کرنے کے لیے، جو معاشرتی انصاف کے اصول کے خلاف ہو گا۔یہ پالیسی اس امر کا ثبوت ہے کہ پاکستان ماحول دوست اور توانائی کے لحاظ سے خود مختار مستقبل کی سمت بڑھنے کے لیے عملی اقدامات کر سکتا ہے، بشرطیکہ اس سفر کو تسلسل، شفافیت اور عوامی شمولیت کے ساتھ جاری رکھا جائے۔یہ منصوبہ صرف مشینوں کی تبدیلی نہیں، زندگیوں کی تبدیلی کا وعدہ ہے۔ یہ دھوئیں سے اٹے آسمان کو نیلا کرنے، شور سے بھری سڑکوں پر سکون کے رنگ بکھیرنے اور تیل کے بل سے جکڑی معیشت کو سانس لینے کا موقع دینے کی ایک کوشش ہے۔ سوچئے، جب کسی مزدور کا پرانا دھواں چھوڑتا رکشہ ایک خاموش اور صاف ای رکشے میں بدل جائے گا، تو وہ نہ صرف کم خرچ پر زیادہ کما سکے گا بلکہ اپنے بچوں کو ایک صاف فضا اور روشن کل دینے کے قریب ہو گا۔ جب ایک طالب علم، مہنگے پٹرول کی فکر سے آزاد ہو کر، ای بائیک پر اپنے کالج پہنچے گا تو یہ صرف ایک سواری نہیں ہو گی — یہ اس کی خود مختاری، اس کا وقت اور اس کی امید بچانے کا ذریعہ ہو گی۔ یہ سبسڈی ایک ایسا بیج ہے جو اگر شفافیت اور عزم کی مٹی میں بویا گیا تو آنے والے برسوں میں ایک سبز، پائیدار اور خوشحال پاکستان کا سایہ دے گا۔

شیئر کریں

:مزید خبریں