آج کی تاریخ

بلوچستان اور ملک بھر میں دہشت گردی کی بڑھتی لہر —ریاست اور عوام کے لیے خطرے کی گھنٹی

پاکستان اس وقت ایک بار پھر دہشت گردی کی سنگین لہر کی زد میں ہے۔ یہ لہر محض چند محدود حملوں یا وقتی واقعات تک محدود نہیں بلکہ ایک منظم، پھیلتی ہوئی اور خطرناک مہم کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ بلوچستان، جو جغرافیائی طور پر ایک نہایت حساس اور وسیع صوبہ ہے، اس مہم کا سب سے بڑا نشانہ بن رہا ہے۔ پچھلے چند ماہ میں ایسے ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جنہوں نے عوام کو خوف و اضطراب میں مبتلا کر دیا ہے، اور ریاستی اداروں کے لیے ایک نیا امتحان کھڑا کر دیا ہے۔
حالیہ دنوں میں جعفر ایکسپریس پر ایک ہفتے میں دوسرا حملہ ہوا، جو جولائی میں اس ٹرین کے اغواء کے بعد سے تیسرا بڑا واقعہ ہے۔ مستونگ کے علاقے دشت میں ریلوے ٹریک پر نصب بم کے دھماکے سے اس ٹرین کی چھ بوگیاں پٹڑی سے اتر گئیں۔ اس وقت ٹرین میں 350 مسافر سوار تھے، خوش قسمتی سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، لیکن یہ محض ایک اتفاق تھا کہ ایک بڑے سانحے سے بچا جا سکا۔ دہشت گردوں کی منصوبہ بندی واضح طور پر اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ عوامی ٹرانسپورٹ کو نشانہ بنا کر زیادہ سے زیادہ خوف و ہراس پھیلانا چاہتے ہیں۔
یہ کوئی اکا دکا واقعہ نہیں۔ صرف تین دن پہلے کوئٹہ جانے والی جعفر ایکسپریس سِبی کے قریب ایک بڑے سانحے سے بال بال بچی جب ٹریک کے ساتھ نصب بم ٹرین کے گزرنے کے فوراً بعد پھٹ گیا۔ اس سے پہلے جولائی میں بولان میل کے ایک ڈبے کو دھماکے سے نقصان پہنچا، جب کہ مارچ میں پیش آنے والا جعفر ایکسپریس کا اغواء تو اپنی نوعیت کا ایک غیر معمولی اور افسوسناک واقعہ تھا، جس میں 21 مسافر اور چار سیکیورٹی اہلکار شہید ہوئے اور سیکڑوں مسافروں کو یرغمال بنایا گیا۔ اس دو روزہ آپریشن کے دوران 33 دہشت گرد مارے گئے، مگر یہ حقیقت نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ وہ اس حد تک کامیاب کیسے ہوئے کہ ایک مسافر ٹرین پر قبضہ کر کے سینکڑوں افراد کو یرغمال بنا سکیں۔
اسی ہفتے بلوچستان کے ضلع ژوب میں افغانستان سے بڑی تعداد میں طالبان دہشت گردوں نے سرحد پار کرنے کی کوشش کی۔ صرف دو دن کے اندر یہ کوشش اتنی وسیع پیمانے پر ہوئی کہ سیکیورٹی فورسز کو ایک بھرپور آپریشن کرنا پڑا، جس میں درجنوں دہشت گرد مارے گئے۔ یہ واقعہ ایک بار پھر اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ ہماری مغربی سرحد پر خطرہ کم ہونے کے بجائے بڑھ رہا ہے، اور دشمن عناصر سرحدی نگرانی میں موجود کسی بھی خلا سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
بلوچستان میں ریلوے نظام کو نشانہ بنانے کی ایک واضح حکمتِ عملی محسوس ہوتی ہے۔ دہشت گرد بار بار ٹرینوں اور ٹریکس پر حملہ کر کے نہ صرف صوبے کا زمینی رابطہ متاثر کرتے ہیں بلکہ عوام میں ایک مستقل خوف کی فضا قائم کر دیتے ہیں۔ یہ حملے اکثر ریموٹ کنٹرول بموں اور بارودی مواد کے ذریعے کیے جاتے ہیں، جو اس بات کا اظہار ہے کہ دہشت گرد عناصر نہ صرف تکنیکی مہارت رکھتے ہیں بلکہ طویل المدتی منصوبہ بندی کے تحت کام کر رہے ہیں۔
ان بڑھتے ہوئے واقعات کے پس منظر میں کئی اسباب کارفرما ہیں۔ ایک بڑا سبب افغانستان سے سرحد پار دہشت گردوں کی آمد ہے۔ ژوب کا واقعہ ہو یا دیگر سرحدی جھڑپیں، یہ سب اس امر کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ سرحدی نگرانی میں اب بھی وہ مضبوطی پیدا نہیں کی جا سکی جو ضروری ہے۔ دہشت گرد عناصر اس کمزوری کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں، اور دور دراز کے پہاڑی علاقوں میں چھپ کر یا گروپوں کی صورت میں داخل ہو کر کارروائیاں کرتے ہیں۔
دوسرا اہم سبب یہ ہے کہ بلوچستان میں کئی عسکریت پسند گروہ ایک ساتھ سرگرم ہیں۔ کچھ علیحدگی پسند ہیں جو صوبے کو وفاق سے الگ کرنے کی تحریک چلا رہے ہیں، جبکہ کچھ مذہبی شدت پسند گروہ ہیں جن کا مقصد اپنے نظریاتی ایجنڈے کو زبردستی نافذ کرنا ہے۔ یہ دونوں طرح کے گروہ کبھی آپس میں ٹکراتے ہیں اور کبھی مشترکہ دشمن یعنی ریاست پاکستان کے خلاف تعاون بھی کرتے ہیں۔
تیسری وجہ مواصلاتی نظام کا غلط استعمال ہے۔ دہشت گرد جدید ٹیکنالوجی، بالخصوص موبائل اور انٹرنیٹ سروسز، کو اپنی کارروائیوں کی ہم آہنگی اور منصوبہ بندی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان حکومت نے حالیہ سیکیورٹی صورتحال کے پیش نظر پورے صوبے میں 3G اور 4G سروسز کو اگست کے آخر تک معطل کر دیا ہے۔ یہ اقدام وقتی طور پر فائدہ مند ہو سکتا ہے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس سے عام شہریوں کو شدید مشکلات پیش آتی ہیں۔
بلوچستان کی جغرافیائی وسعت، دشوار گزار پہاڑی علاقے، کم آبادی اور کمزور انفراسٹرکچر، سب مل کر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے بروقت کارروائی کو ایک مشکل کام بنا دیتے ہیں۔ بعض اوقات دہشت گردی کا واقعہ رونما ہونے کے کئی گھنٹے بعد تک سیکیورٹی فورسز متاثرہ مقام پر پہنچ پاتی ہیں۔ یہ تاخیر دہشت گردوں کو فرار کا موقع فراہم کرتی ہے، اور یہی وجہ ہے کہ وہ بار بار کارروائی کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔
اس صورتِ حال میں یہ واضح ہے کہ صرف عسکری کارروائیوں پر انحصار کافی نہیں۔ ایک جامع قومی حکمتِ عملی ناگزیر ہے جس میں سرحدی نگرانی کو جدید ٹیکنالوجی سے لیس کرنا، انٹیلی جنس نیٹ ورک کو مضبوط بنانا، اور عوامی مقامات و قومی انفراسٹرکچر کی حفاظت کے لیے اضافی وسائل فراہم کرنا شامل ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ مقامی آبادی کی شمولیت بھی ضروری ہے۔ بلوچستان کے عوام کو یہ یقین دلانا ہوگا کہ وہ ریاست کے برابر کے شہری ہیں، ان کے مسائل سنے اور حل کیے جا رہے ہیں، اور ترقیاتی منصوبے صرف کاغذی وعدوں تک محدود نہیں رہیں گے۔
انتہا پسندی کے بیانیے کا توڑ بھی ایک اہم پہلو ہے۔ جب تک شدت پسندوں کی سوچ اور پروپیگنڈے کا فکری جواب نہیں دیا جائے گا، نئے لوگ اس چکر میں پھنس سکتے ہیں۔ اس کے لیے تعلیمی اداروں، مساجد، میڈیا اور سوشل پلیٹ فارمز پر ایک مربوط مہم چلانا ضروری ہے۔ ریاست کو یہ تاثر دینا ہوگا کہ وہ صرف بندوق کے زور پر نہیں بلکہ دلیل، انصاف اور ترقی کے ذریعے بھی اس جنگ کو لڑ رہی ہے۔
دہشت گردی کی یہ نئی لہر صرف بلوچستان یا پاکستان تک محدود نہیں بلکہ پورے خطے کے امن کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔ پاکستان اگر اس چیلنج کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہتا ہے تو اس کے اثرات معیشت، سیاست اور معاشرت پر طویل المدتی اور تباہ کن ہو سکتے ہیں۔ اس لیے وقت کی ضرورت ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں، عسکری ادارے، انٹیلی جنس ایجنسیاں اور عوام سب ایک متحد محاذ بنائیں۔ اس جنگ میں کوئی تماشائی نہیں رہ سکتا، کیونکہ دشمن کی گولی کسی کو دیکھ کر نہیں چلتی۔
یہ ادراک ضروری ہے کہ دہشت گردی کا یہ معرکہ محض ہتھیاروں کا نہیں بلکہ اعصاب، حکمت، اور طویل المدتی عزم کا امتحان ہے۔ اگر ریاست اور عوام یکجا ہو کر اس خطرے کا مقابلہ کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم ایک بار پھر امن کی طرف نہ لوٹ سکیں۔ لیکن اگر غفلت برتی گئی، تو یہ خطرہ صرف بڑھتا ہی جائے گا، اور پھر شاید ہمارے پاس وقت کم رہ جائے۔
بلوچستان میں انٹرنیٹ ڈیٹا سروسز کی بندش کا فیصلہ محض ایک انتظامی حکم نہیں بلکہ لاکھوں عام شہریوں کی روزمرہ زندگی میں ایک کاری ضرب ہے۔ آج کا دور ڈیجیٹل معیشت کا دور ہے۔ وہ نوجوان جو دن رات لیپ ٹاپ پر بیٹھ کر دنیا کے مختلف حصوں میں کام کرتے تھے، وہ طلبہ جو آن لائن تعلیم حاصل کر رہے تھے، وہ چھوٹے کاروباری لوگ جو گاہکوں تک پہنچنے کے لیے انٹرنیٹ پر انحصار کرتے تھے — سب کے سب ایک جھٹکے میں مفلوج ہو گئے ہیں۔ یہ صرف نیٹ ورک کاٹنے کا عمل نہیں، یہ خواب کاٹنے کا عمل ہے۔
حکومت کہتی ہے کہ دہشت گرد انٹرنیٹ کا غلط استعمال کرتے ہیں، اس لیے یہ قدم اٹھایا گیا۔ لیکن کیا دہشت گردوں کو روکنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ پورے صوبے کو خاموش کر دیا جائے؟ کیا یہ انصاف ہے کہ چند مجرموں کی وجہ سے ایک پورا صوبہ اپنی آواز اور اپنا روزگار کھو دے؟ کیا یہ بہتر نہیں تھا کہ ٹیکنالوجی اور انٹیلی جنس کو مضبوط بنا کر صرف مجرموں کو نشانہ بنایا جاتا، نہ کہ ہر شہری کو؟
یہ رویہ اس سوچ کا تسلسل ہے جس نے بلوچستان کو ہمیشہ فاصلے پر رکھا۔ طاقت کا استعمال، وسائل کی تقسیم میں ناانصافی، اور مقامی لوگوں کے ساتھ فیصلہ سازی میں عدم شمولیت — یہی وہ زخم ہیں جو آج بھی رس رہے ہیں۔ جب تک یہ زخم نہیں بھرے جائیں گے، امن کا خواب محض ایک نعرہ ہی رہے گا۔
اور پھر سوال یہ بھی ہے کہ آخر حکومت کب بلوچستان کے اصل اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ بیٹھے گی؟ کب بلوچ یک جہتی کمیٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی-مینگل، سردار لشکری رئیسانی، سردار اختر مینگل، ڈاکٹر حاصل بزنجو، محمود خان اچکزئی اور دیگر نمائندہ آوازوں کو سنجیدگی سے مذاکرات کی میز پر بلایا جائے گا؟ کیا یہ سب لوگ دشمن ہیں، یا وہ اس دھرتی کے بیٹے ہیں جو اپنے حصے کی عزت، ترقی اور حقوق مانگ رہے ہیں؟
آج بلوچستان میں اعتماد کا بحران سب سے بڑا چیلنج ہے۔ لوگ صرف امن نہیں چاہتے، وہ عزت کے ساتھ جینا چاہتے ہیں۔ وہ یہ یقین چاہتے ہیں کہ ان کے بچوں کے لیے نوکریاں، تعلیم، صحت اور بہتر زندگی کے مواقع موجود ہوں گے۔ وہ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ ان کی زمین سے نکلنے والے وسائل کا فائدہ ان کی اپنی بستیوں تک پہنچے گا۔ لیکن جب فیصلے اسلام آباد اور کوئٹہ کے بند کمروں میں، ان کے بغیر، ان پر مسلط کیے جاتے ہیں تو پھر وہ ریاست کو اپنا کیوں سمجھیں؟
حکومت اگر یہ سمجھتی ہے کہ بندوق کی نوک پر امن قائم ہو جائے گا تو یہ ماضی کی سب سے بڑی غلطی کو دہرانا ہے۔ بندوق سے خاموشی تو ہو سکتی ہے، سکون نہیں۔ امن کی جڑ مکالمے میں ہے، شراکت داری میں ہے، اور سب سے بڑھ کر انصاف میں ہے۔ اگر آج حکومت نے تمام سیاسی، قبائلی اور سماجی قوتوں کو ایک جگہ بٹھا کر قومی اتفاقِ رائے پیدا نہ کیا تو آنے والے وقت میں یہ خلیج مزید گہری ہو جائے گی۔
بلوچستان کے لوگ تھک چکے ہیں — دہشت گردی سے بھی اور لاپتہ لوگوں کی کہانیوں سے بھی، وسائل کی لوٹ مار سے بھی اور وعدوں کی سیاست سے بھی۔ وہ اب عمل چاہتے ہیں، الفاظ نہیں۔ حکومت کے پاس اب بھی موقع ہے کہ طاقت اور مفاہمت کے درمیان توازن قائم کرے، اور یہ پیغام دے کہ بلوچستان پاکستان کا اتنا ہی حصہ ہے جتنا کوئی اور صوبہ۔ اگر یہ پیغام نہ دیا گیا، تو شاید کل یہ سوال محض اداریوں اور تقریروں میں نہ رہے، بلکہ گلی کوچوں میں گونجنے لگے۔
یہ صورتحال اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے کہ بلوچستان کے معاملات کو اب بھی بنیادی طور پر سیکیورٹی کے تناظر میں ہی دیکھا جا رہا ہے، جبکہ مسئلے کی جڑ سیاسی اور معاشی محرومیوں میں پیوست ہے۔ اگر وفاقی اور صوبائی حکومتیں بلوچستان میں پائیدار امن قائم کرنے میں سنجیدہ ہیں تو انہیں بندوق کے ساتھ ساتھ مکالمے کی میز بھی بچھانی پڑے گی۔ مگر افسوس کہ آج تک حکومت نے بلوچستان کے بڑے سیاسی اسٹیک ہولڈرز، جیسے بلوچ یک جہتی کمیٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی-مینگل، سردار لشکری رئیسانی، سردار اختر مینگل، ڈاکٹر حاصل بزنجو، محمود خان اچکزئی اور دیگر اہم رہنماؤں کے ساتھ سنجیدہ اور بامقصد مذاکرات کرنے کی طرف کوئی واضح قدم نہیں بڑھایا۔
سوال یہ ہے کہ آخر حکومت بلوچستان کے تمام سیاسی، قبائلی اور سماجی دھڑوں کو ایک میز پر بٹھا کر ایک قومی اتفاقِ رائے کیوں نہیں پیدا کرتی؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ جب تک مقامی قیادت کو اعتماد میں نہیں لیا جائے گا اور ان کے ساتھ شراکت داری قائم نہیں کی جائے گی، تب تک وہاں کے عوام ریاست پر اعتماد بحال نہیں کریں گے؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ بلوچستان کے نوجوان تبھی ہتھیار چھوڑیں گے جب انہیں اپنی ترقی، روزگار، اور عزتِ نفس کی ضمانت ملے گی؟
بلوچستان کے معاملے کو صرف طاقت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش ماضی میں بھی ناکام رہی ہے اور آئندہ بھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ ریاست اگر واقعی اس خطے کو پرامن دیکھنا چاہتی ہے تو اسے اپنی پالیسی میں بنیادی تبدیلی لانی ہوگی۔ یہ تبدیلی محض عسکری حکمتِ عملی نہیں بلکہ ایک سیاسی معاہدہ، ایک معاشی پیکیج اور ایک سماجی بیانیے پر مشتمل ہونی چاہیے، جو بلوچستان کو پاکستان کے باقی صوبوں کے برابر مواقع فراہم کرے۔
یہ ادراک نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے ملک کے لیے ضروری ہے کہ اگر اس صوبے کے زخم بھرنے کا عمل شروع نہ ہوا تو دہشت گردی کی یہ لہر رکنے کے بجائے مزید پھیل سکتی ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ حکومت طاقت اور مفاہمت کے درمیان توازن قائم کرے، اور سیاسی مکالمے کو اولین ترجیح دے، کیونکہ بندوق کے زور پر حاصل ہونے والا امن ہمیشہ عارضی ہوتا ہے۔

یورپ کا اسٹریٹجک خودمختاری کا خواب — ایک اور امتحان میں کمزور پڑ گیا

یورپی یونین بظاہر ایک بڑے تجارتی بحران سے بچ نکلی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ طے پانے والا ہنگامی معاہدہ، جس کے تحت یورپی برآمدات پر 15 فیصد ٹیرف کے عوض توانائی اور سرمایہ کاری میں بھاری وعدے کیے گئے، برسلز میں اسے سفارتی کامیابی کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ مگر ذرا گہرائی میں جھانکیں تو یہ کامیابی کم اور مجبوری میں دی گئی رعایت زیادہ محسوس ہوتی ہے، جسے استحکام کے خوبصورت لفظوں میں لپیٹ دیا گیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس معاہدے کی جڑ میں وہی پرانا یورپی رجحان ہے: فوری نقصان کو روکنا اور ڈھانچاتی اصلاحات کو مؤخر کرنا۔ یکم اگست سے قبل اگر کوئی فریم ورک طے نہ ہوتا تو یورپی برآمدات پر 30 فیصد تک کے بھاری ٹیرف لگ سکتے تھے۔ اس خطرے سے بچنے کے لیے یورپی کمیشن نے تیزی سے ایک ایسا معاہدہ کیا جو بظاہر نقصان کو محدود کرتا ہے، مگر ختم نہیں کرتا۔
کاغذ پر گاڑیوں اور دواسازی جیسے اہم شعبے بدترین صورتحال سے بچ گئے، لیکن عملی طور پر دیکھا جائے تو یورپی برآمد کنندگان اب بھی اس ٹیرف نظام کا سامنا کریں گے جو ٹرمپ کی واپسی سے پہلے کی صورتحال سے کہیں زیادہ سخت ہے۔ اس کے ساتھ توانائی کی درآمدات میں 750 ارب ڈالر اور یورپی کمپنیوں کی طرف سے 600 ارب ڈالر کی اضافی سرمایہ کاری کے وعدے مزید سوالات کو جنم دیتے ہیں۔ اتنی بڑی رقوم ایسے وقت میں پیش کی جا رہی ہیں جب کئی رکن ممالک پہلے ہی شدید مالی دباؤ کا شکار ہیں۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ان وعدوں پر عمل درآمد کا طریقہ کار کیا ہوگا؟ کن شعبوں کو یہ سرمایہ کاری ملے گی؟ اور آئندہ مذاکرات میں یورپ کے پاس بچا کیا رہ جائے گا؟
اس معاہدے پر اندرونی تنقید بھی شدید ہے۔ فرانس نے اسے “یورپ کا سیاہ دن” قرار دیا، ہنگری نے اسے ذلت آمیز کہا، اور یہاں تک کہ جرمنی کی صنعتی تنظیموں نے — جو اس معاہدے کے سب سے بڑے حمایتی سمجھے جا رہے تھے — طویل المدتی نقصانات پر سوال اٹھا دیے۔ یہ اختلافات اس بڑے مسئلے کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یورپی یونین کی اندرونی معاشی تقسیم، اس کی سب سے نازک گھڑیوں میں یکجا پالیسی اختیار کرنے کی صلاحیت کو کمزور کر رہی ہے۔
اصل تشویش ناک بات صرف یہ نتیجہ نہیں بلکہ یہ طرزِ عمل ہے۔ یہ پہلی بار نہیں کہ برسلز نے واشنگٹن کے دباؤ کو براہِ راست چیلنج کرنے کے بجائے اسے جذب کرنے کا فیصلہ کیا ہو۔ دہائیوں سے یہ منطق قائم ہے کہ ٹرانس اٹلانٹک تعلقات کو ترجیح دے کر یورپ کے معاشی ڈھانچے کو محفوظ رکھا جائے۔ مگر وقت بدل چکا ہے اور وہ بنیادیں جن پر یہ منطق کھڑی تھی، اب تیزی سے کمزور ہو رہی ہیں۔
ٹرمپ کا عالمی نقطۂ نظر دو طرفہ دباؤ اور صفر جمع نتائج پر مبنی ہے، جو یورپی یونین کی کثیرالجہتی سوچ سے متصادم ہے۔ یہ تضاد نیا نہیں، مگر آج کے سیاسی و معاشی حالات میں یہ پہلے سے زیادہ نمایاں ہے، جہاں سپلائی چینز سیاسی ہتھیار بن چکی ہیں، توانائی کی ترسیل مکمل طور پر تجارتی سودے بازی کا حصہ ہے، اور ٹیکنالوجی کی دوڑ ایک تزویراتی مقابلہ بن چکی ہے۔ اس ماحول میں یورپ کا ردِعمل زیادہ تر دفاعی اور ردِعمل پر مبنی دکھائی دیتا ہے۔
برسلز کی قیادت اس معاہدے کو یا تو یہ رعایت یا پھر مکمل تجارتی جنگ کے درمیان ایک لازمی انتخاب کے طور پر پیش کر رہی ہے۔ یہ سوچ خود اس بات کا ثبوت ہے کہ یورپ کے پاس مؤثر سودے بازی کے لیے مطلوبہ طاقت اور اعتماد دونوں کی کمی ہے۔ معاشی طاقت رکھنے کے باوجود، یورپی یونین کے پاس اب بھی ایسے سیاسی اور ادارہ جاتی اوزار نہیں ہیں جو اس کی منڈی کے سائز کو عملی سفارتی دباؤ میں بدل سکیں۔
اسٹریٹجک خودمختاری” کا نعرہ 2016 سے یورپی سیاست میں مرکزی حیثیت رکھتا آیا ہے۔ لیکن جب بھی اس نعرے کو آزمانے کا وقت آتا ہے، نتیجہ محض حالات کے مطابق تھوڑی سی ایڈجسٹمنٹ ہوتا ہے، کوئی حقیقی نئی تعریف یا جرأت مندانہ قدم نہیں۔ اس معاہدے نے ایک بار پھر یہ واضح کر دیا کہ یورپی یونین اب بھی اس اعتماد سے محروم ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ سب سے حساس مواقع پر برابری کی سطح پر بات کر سکے۔
یقیناً، اس معاہدے نے مختصر مدت کے لیے لاکھوں یورپی ملازمتوں کو بچا لیا ہوگا، لیکن اس نے ساتھ ہی یہ پیغام بھی دے دیا کہ برسلز ابھی تک آزادی کی قیمت پیشگی ادا کرنے پر تیار نہیں۔ اگر واقعی مقصد ایک خودمختار اور مضبوط یورپ بنانا ہے تو یہ جھجک ختم کرنا ہوگی۔ دنیا تیزی سے بدل رہی ہے اور جلد یا بدیر، محض کشیدگی سے بچنا کافی نہیں رہے گا۔ ایک وقت ایسا بھی آ سکتا ہے جب یورپ کو فیصلہ کرنا پڑے گا کہ وہ دباؤ برداشت کرتا رہے گا یا پھر اپنی خودمختاری کے تحفظ کے لیے خطرہ مول لے گا۔

شیئر کریں

:مزید خبریں