ملتان (قوم ریسرچ سیل) گھر پر کام کرنے کی 6 ماہ کی تنخواہ مانگنے پر جرائم پیشہ شہرت کے حامل سابقہ ایس ایچ او سیف اللہ ملہی نے اپنی ہی ملازمہ پر اغواء برائے تاوان کا بے بنیاد مقدمہ درج کرا دیا۔ توجہ طلب امر یہ ہے کہ ہنی ٹریپ کے ذریعے اغواء برائے تاوان کی وارداتوں میں کچے علاقے میں اغوا کاروں اور ڈاکوؤں کے علاوہ دیگر خواتین بھی سیف اللہ ملہی کے لیے کام کر رہی ہیں۔ سیف اللہ ملہی نے اپنی ہی گھریلو ملازمہ کو تنخواہ مانگنے پر کوٹ سبزل تھانہ کی حدود کا جھوٹا مقدمہ بنا کر گرفتار کیا اور اسے جیل بھیج دیا۔ اب سیف اللہ ملی کی جانب سے اپنی سابقہ ملازمہ سمینہ کو دس ماہ جیل میں رہ کر رہا ہونے کے باوجود دوبارہ جان سے مارنے اور پورے خاندان کو اغواء برائے تاوان میں ملوث کرنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ سمینہ بی بی نے اس پر ائی جی پنجاب کو درخواست دے دی ہے اور روتے ہوئے ایک ویڈیو بیان بھی جاری کیا ہے کہ ان کو اور ان کے خاندان کو تحفظ فراہم کیا جائے اور سیف اللہ ملی کے ظلم سے بچایا جائے۔ یاد رہے کہ سیف اللہ ملی اور نوید نواز واہلہ نامی رحیم یار خان پولیس کے دو حساب اس ویکٹر اج کل نوکری سے برخاست ہیں مگر اغوا کاری کے دھندے میں آج بھی ملوث ہیں اور ان کا نیٹ ورک اج بھی کچے کے علاقے میں کام کر رہا ہے۔ یہ دونوں برخاست شدہ سب انسپکٹرز پر اغواء کاروں اور ڈاکوؤں کی سرپرستی، ناجائز اسلحہ کی فراہمی، سینکڑوں ایکڑ اراضی پر قبضے اور کروڑوں روپے کی جائیدادیں بنانے کے ثابت شدہ الزامات ہیں۔ یاد رہیں کہ سابقہ ایس ایچ او نوید نواز واہلہ اور سیف اللہ ملہی کی نوکری سے برطرفی کو ایڈیشنل آئی جی جنوبی پنجاب کامران خان نے برقرار رکھا ہے۔ایڈیشنل آئی جی کے تحریری حکم نامے میں دونوں کو مکمل قصور وار قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ افسران قانون کے رکھوالے نہیں بلکہ قانون شکن گروہ کا حصہ تھے۔ ان کا گٹھ جوڑ نہ صرف اغواء کار گروہوں اور ڈاکوؤں کے ساتھ تھا، بلکہ مبینہ طور پر وہ ڈیل کے ذریعے مغویوں کی ڈاکوں کی ناجائز قید سے رہائی دلوا کر کروڑوں روپے کماتے اور کچہ کے علاقے کو نو گو ایریا میں بدلنے میں مرکزی کردار ادا کرتے تھے۔ذرائع کے مطابق، یہ دونوں سابقہ تھانے دار صحافیوں کو جان سے مار دینے کی دھمکیاں دیتے، کچہ میں رہنے والی برادریوں کے درمیان خونی تصادم کرواتے، اور حکومت کی طرف سے ملنے والے اربوں روپے کے فنڈز ہڑپ کرنے میں بھی اعلی افسران کے سہولت کار کے طور پر شامل ہوتے رہے ہیں۔ سیف اللہ ملہی ماضی میں پنجاب پبلک سروس کمیشن کے امتحانات میں دھاندلی کرانے کے ایک انتہائی منظم نیٹ ورک کا اہم حصہ رہ چکا ہے اور جال سازی کے الزام میں معطل بھی ہوا جبکہ اس کے خلاف مقدمہ بھی درج ہوا مگر حسب روایت بعد میں بحال ہو کر کچے کا “ڈان” بن گیا۔ممبر پنجاب اسمبلی ممتاز چانگ نے بھی پنجاب اسمبلی میں سابقہ ڈی پی او رحیم یار خان رضوان عمر گوندل اور ان دو ایس ایچ اوز سیف اللہ ملہی اور نوید نواز واہلہ کے خلاف تحریک استحقاق بھی دائر کی تھی اور سنگین نوعیت کے الزامات عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ دونوں سب انسپکٹرز کے ہاتھ کئی بے گناہوں کے خون میں رنگے ہوئے ہیں۔ ان دونوں کے خلاف ایک ویڈیو بھی وائرل ہوئی جس میں ڈاکوؤں کو اسلحہ سمیت واپس کرنے کا مبینہ تبادلہ دکھایا گیا، مگر اس کے باوجود یہ گروہ طویل عرصہ تک ناقابلِ گرفت رہا۔ اس وقت پنجاب اسمبلی کمیٹی میں سابق ڈی پی او رضوان عمر گوندل کے خلاف انکوائری جاری ہے، جہاں انہیں سخت سوالات کا سامنا ہے۔ ذرائع کے مطابق، خانپور میں اغواء شدہ بچوں کے مبینہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے نوجوانوں، ڈی ایس پی سپیشل برانچ سیف اللہ کورائی کے مشکوک قتل، اور کچہ میں ڈاکوؤں کے حملے میں شہید ہونے والے ایک درجن پولیس اہلکاروں کے واقعات کے پیچھے بھی اسی نیٹ ورک کا ہاتھ ہونے کے شواہد سامنے آ سکتے ہیں۔ یہ انکشافات اس بات کا ثبوت ہیں کہ کچہ کے جنگلات میں چھپے ڈاکو صرف ڈاکو نہیں، بلکہ ان کے پیچھے وردی میں چھپے یہ دونوں طاقتور سہولت کار بھی تھے اور ان کے مظالم کی کہانی ابھی مکمل نہیں ہوئی۔
