اسلام آباد: پاکستان گزشتہ مالی سال میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے مقرر کردہ سماجی شعبے کے اخراجات کے ہدف کو معمولی فرق کے ساتھ حاصل نہ کر سکا۔ وفاقی حکومت اور چاروں صوبوں کو صحت اور تعلیم کے شعبوں پر کم از کم 2.86 کھرب روپے خرچ کرنے تھے، لیکن کل اخراجات صرف 2.84 کھرب روپے رہے جو ہدف سے تقریباً 27 ارب روپے کم ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر حکومتوں کے درمیان طے شدہ اہداف کو مدنظر رکھا جائے تو اصل کمی تقریباً 240 ارب روپے بنتی ہے۔ سندھ، خیبر پختونخوا اور پنجاب نے اپنے اہداف پورے کرنے میں نمایاں کمی دکھائی، جبکہ وفاقی حکومت اور بلوچستان نے مقررہ ہدف سے زائد خرچ کیا۔
آئی ایم ایف کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں 2018 کے بعد صحت اور تعلیم پر ہونے والے اخراجات میں کمی واقع ہوئی ہے۔ اس مالی سال بھی سندھ اور خیبر پختونخوا میں اخراجات کی شرح مایوس کن رہی، جس کی بڑی وجوہات انتظامی کمزوریاں اور فنڈز کے مؤثر استعمال میں ناکامی ہیں۔
پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری کے مطابق پنجاب نے صحت کے لیے 524.8 ارب روپے مختص کیے، جن میں سے 505 ارب روپے خرچ کیے گئے۔ تعلیم کے لیے 664 ارب روپے کا ہدف تھا، جس میں 649 ارب روپے خرچ ہوئے جو 98 فیصد بنتا ہے۔
سندھ حکومت نے 853 ارب روپے خرچ کرنے کا ہدف مقرر کیا تھا لیکن اصل اخراجات صرف 670 ارب روپے رہے، یعنی 153 ارب روپے کی کمی ہوئی۔ خیبر پختونخوا نے 600 ارب روپے کے ہدف کے مقابلے میں 545 ارب روپے خرچ کیے، جو 55 ارب روپے کم ہیں۔
دوسری جانب بلوچستان نے 181 ارب روپے کے ہدف کے مقابلے میں 206 ارب روپے خرچ کیے، جو 25 ارب روپے زائد ہیں۔
عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تعلیمی شعبے میں مساوی رسائی ایک بڑا چیلنج ہے، خاص طور پر دیہی علاقوں میں۔ 2022-23 کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں 2.61 کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں جو اسکول جانے کی عمر کے بچوں کا 38 فیصد بنتے ہیں، اور ان میں سے 74 فیصد دیہی علاقوں میں رہتے ہیں۔
عالمی بینک کا کہنا ہے کہ موجودہ رفتار برقرار رہی تو پاکستان 2030 تک صحت کے پائیدار ترقیاتی اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہے گا۔
