تحریر : طارق قرشی
گذشتہ ایک سال کے قلیل عرصے میں پاکستان کا سیاسی منظر جس تیزی کے ساتھ تبدیل ہوا ہے ملک کی سیاسی تاریخ میں اس سے قبل ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔ عدم اعتماد سے پہلے اور عدم اعتماد کے بعد آنے والی تبدیلی اپنی جگہ حیران کن تھی۔ مگر 9 مئی کے بعد سیاست میں آنے والی تبدیلی حیران کن تھی۔ اپنے ہاتھوں سے اپنے آپ کو تباہ کرنے کی مثال تو سنتے آئے تھے مگر دیکھا پہلی بار سیاسی جماعتوں میں توڑ پھوڑ اور آنے جانے کا عمل پاکستان میں کوئی نئی بات نہیں مگر کان نمک کی طرح ایک وفاقی جماعت کو تحلیل ہوتا پہلی بار دیکھا جا رہا ہے۔ اس وقت پاکستان کی سیاست میں جنگ کے اختتام پر دکھائی دینے والا منظر ہے۔ ہر سیاسی جماعت تحریک انصاف کے بھاگتے ہوئے ارکان کی صورت میں مال غنیمت میں اپنے لیے زیادہ سے زیادہ حصہ لینے کی تگ و دو میں مصروف نظر آتی ہے۔ اس ساری صورت حال میں مسلم لیگ (ن) کا طرز عمل بھی حیران کن ہے۔ ایک طرف جہانگیر ترین گروپ موجودہ اتحادی حکومت کا باقاعدہ حصہ ہے اس کے ایک اہم رکن عون چوہدری کے ساتھ مل کر تحریک انصاف کے مفرور ارکان کو اپنے پنجرے میں قید کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے خلاف بنائے گئے مقدموں کے خاتمے کے لیے بھاگ دوڑ کرتے نظر آ رہے ہیں۔ جہانگیر ترین کی جانب سے ایک نئی سیاسی جماعت کی تشکیل بھی اب آخری مراحل میں ہے۔ اب اس نئی جماعت کا میدان عمل تو صوبہ پنجاب ہی میں ہو گا۔ اس طرح اس نئی بننے والی جماعت کا اصل مقابل بھی مسلم لیگ (ن) ہی ہو گی۔ اس ساری صورتحال کے باوجود مسلم لیگ (ن) کے بڑوں کی پر اسرار خاموشی کچھ سمجھ نہیں آ رہی۔ دوسری طرف پیپلزپارٹی نے جنوبی پنجاب سے اپنے سیاسی شکار کے آغاز کے بعد اپنے شکار کی مار شمالی اور وسطی پنجاب تک بڑھا دی ہے۔ اب زرداری صاحب کا جادو گوجرانوالہ ، فیصل آباد اور سرگودھا ڈویژن میں بھی سر چڑھتا نظر آ رہا ہے۔ مجھے ذاتی طور پر پاکستانی سیاست کے طالب علم کی حیثیت سے اس طرح محسوس ہو رہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) میں سیاسی اور نظریاتی تقسیم نے قیادت کو بھی پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے۔ نواز شریف کی عمر اور صحت کے مسائل نے نواز شریف کے لیے سیاست میں فعال کردار ادا کرنے پر ایک سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ مریم نواز اپنی تمام تر عوامی مقبولیت کے باوجود ابھی تک اپنے آپ کو وزیراعظم کے عہدے کے لیے قابل قبول نہیں بنا سکیں۔
دوسری طرف شہباز شریف تنہا اپنے آپ کو سیاسی قائد کے طور پر منوانے میں مکمل ناکام رہے ہیں۔ شریف خاندان سے باہر ابھی تک کوئی شخص ایسا سامنے نہیں آ سکا جس پر پارٹی کے تمام سینئر اراکین کے ساتھ ساتھ عوام بھی اسے نواز شریف کے متبادل کے طور پر قبول کر لیں۔ یہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کا اگلا ہدف صرف صوبہ پنجاب میں حکومت کے ساتھ ساتھ وفاق میں ایک ایسی دوستانہ حکومت کا قیام ہے جس کے اتحادی بن کر وفاق میں نمایاں حصہ حاصل کرتے ہوئے اپنی سیاست کے ساتھ ساتھ پارٹی کو بھی آنے والے وقتوں میں ٹوٹ پھوٹ سے بچا نا ہے۔ اس سارے منصوبے کی تکمیل تب ہی ممکن ہے کہ جب پنجاب میں مسلم لیگ ن ایک بڑی اکثریتی جماعت کے طور پر سامنے آ سکے۔ اس حوالے سے مسلم لیگ (ن) کے لیے کمفرٹ زون وسطی پنجاب اور شمالی پنجاب کے اضلاع ہی بنتے ہیں۔ گذشتہ انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ عدلیہ اور بہت سی ان دیکھی طاقتوں کی مخالفت کے باوجود مسلم لیگ (ن) کی سیاست کے بچائو میں انہی علاقوں کا کمال تھا۔ اب بھی ایسا ہی لگتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) پنجاب کی حکومت واپس لینے کی ہی منصوبہ بندی میں مصروف ہے۔ 9 مئی سے پہلے یہ بات تو بالکل عیاں تھی کہ پنجاب میں سیاسی معرکہ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے درمیان ہی رہے گا۔ 9 مئی کے بعد آنے والی تبدیلی نے صورتحال یکدم تبدیل کر دی ہے۔ موجودہ صورتحال میں سیاسی لڑائی صرف دو جماعتوں تک محدود نہیں رہی۔ جہاں ایک طرف پیپلزپارٹی پنجاب میں تیزی سے اپنے قدم جمانے کی جدوجہد میں مصروف ہے۔ وہیں مسلم لیگ (ق) چوہدری شجاعت کی سرپرستی کے ساتھ ساتھ چوہدری سرورکے تجربے اور سرمائے سے سیاست کے اہم کھلاڑی کے طور پر نظر آ رہی ہے۔ جہانگیر ترین کی نئی سیاسی جماعت تحریک انصاف کا نیا ماڈل ہو گا۔ تحریک انصاف کے سابقہ اراکین خاص طور پر الیکٹیبلز کے طور پر جانے کتنے اراکین اس میں شامل ہونگے۔ پنجاب کی سیاست میں آنے والے دنوں میں یہ بھی بہت اہم ہو گا۔ تحریک انصاف کے اراکین کی کافی بڑی تعداد جسے کرنل ہاشم ڈوگر اور مراد راس اکٹھا کرتے نظر آ رہے ہیں ان کا فیصلہ ہے کہ وہ نہ اپنی جماعت بنائیں گے نہ کسی جماعت میں شامل ہونگے بلکہ آزاد رکن کے طور پر انتخابات میں حصہ لیں گے جب کہ کامیاب ہونے کے بعد بطور گروپ اجتماعی طورپر فیصلہ کریں گے کہ کس سیاسی جماعت کی حمایت کرنی ہے۔ اس پس منظر میں مسلم لیگ (ن) کے لیے پنجاب میں اپنی حکومت قائم کرنا کوئی آسان ہدف نظر نہیں آ رہا۔ اتحادی حکومت ہونے کے باوجود عوام میں موجودہ حکومت کا چہرہ شہباز شریف کی صورت میں مسلم لیگ (ن) کا ہی ہے۔ مہنگائی کے ساتھ ساتھ مخدوش کاروباری حالات کے باعث بے روزگاری جیسے مسائل کا وزن مسلم لیگ (ن) کو ہی اٹھانا پڑے گا۔
مریم نواز کی صورت میں عوامی چہرہ انتخابی مہم میں کتنی کامیابی حاصل کر سکتا ہے یہ بھی بڑا سوالیہ نشان ہے۔ اگر کشمیر اور گلگت بلتستان کے انتخابات کا جائزہ لیا جائے تو وہاں مریم نواز بڑے جلسے تو کرنے میں کامیاب رہی تھیں مگر انتخابی نتائج میں کوئی بڑی کامیابی ان کا مقدر نہ بن سکی تھی۔ پیپلزپارٹی آصف زرداری کی قیادت میں اس وقت اسٹیبلشمنٹ کی سب سے زیادہ قربت والی جماعت نظر آ رہی ہے۔ مسلم لیگ (ن) بھی اس چیز کو محسوس کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کے ساتھ مخالفانہ سیاست کے بجائے مفاہمانہ سیاست کرتی نظر آ رہی ہے۔ غیر محسوس طریقہ سے مسلم لیگ (ن) وزارت عظمی پر پیپلزپارٹی کے لیے سیاست میں مشکلات کے بجائے آسانیاں پیدا کرتی نظر آ رہی ہے۔ یہ ساری باتیں اپنی جگہ ایک اور بڑا مسلم لیگ (ن) کے سامنے جو نظر آ رہا ہے وہ یہ کہ اگر پنجاب میں حکومت بنانے کے لیے اکثریت حاصل ہو بھی جائے تو وزیراعلیٰ کون ہو گا۔ شہباز شریف تو اب اپنے آپ کو وزیراعظم سے کم دیکھنے کے لیے راضی نہ ہونگے۔ حمزہ شہباز نے اپنی فاش غلطیوں سے اپنے آپ کو خود ہی پیچھے دھکیل دیا۔ مسلم لیگ (ن) کی سینئر قیادت کیا مریم نواز کو وزیراعلیٰ قبول کر لے گی۔ بہ ظاہر ایسا ہوتا آسانی سے نظر نہیں آ رہا۔ موجودہ صورتحال میں اگر دیکھا جائے تو سب سے بہتر پوزیشن میں پیپلزپارٹی نظر آتی ہے۔ پیپلزپارٹی کو سندھ میں کوئی چیلنج ہی نہیں جبکہ باقی تینوں صوبوں میں بھی اس کی پوزیشن سب سے بہتر ہے۔ سب سے پریشان کن صورتحال مسلم لیگ (ن) کی ہے۔ جس کے لیے آئندہ انتخابات میں حکومت کے حصول سے زیادہ اپنی سیاسی بقاء کا معاملہ در پیش ہے۔