خیبر پختونخوا کے سابق قبائلی اضلاع میں ایک بار پھر شدت پسندی کی نئی لہر ابھر رہی ہے، اور اس کے ساتھ ہی دہشت گردی اور جوابی کارروائیوں کے خدشات نے عوام میں خوف و ہراس پیدا کر دیا ہے۔ ایسے میں ریاست ایک بار پھر ایک ایسی دوراہے پر کھڑی ہے جہاں کوئی بھی راستہ آسان یا بے ضرر نہیں۔
گزشتہ چند روز میں خیبر پختونخوا حکومت نے سابق قبائلی علاقوں میں تین بڑے جرگے منعقد کیے تاکہ مقامی لوگوں کی رائے معلوم کی جا سکے۔ ان جرگوں میں قبائلی عمائدین نے افغان طالبان سے بات چیت اور بعض کالعدم تنظیموں کے ساتھ مذاکرات کا مطالبہ کیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ان علاقوں میں مزید فوجی کارروائیوں کے خلاف ایک عمومی اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے، اور شاید یہی وجہ ہے کہ وزیر مملکت برائے داخلہ نے واضح کیا ہے کہ کسی نئے آپریشن کا ارادہ نہیں۔ اس کے ساتھ ہی ایک گرینڈ جرگہ بلانے کی تیاری بھی کی جا رہی ہے تاکہ آئندہ کے لائحہ عمل پر اتفاق ہو سکے۔
یہ حقیقت ہے کہ گزشتہ بیس سالوں سے خیبر پختونخوا، خاص طور پر سابق فاٹا، مسلسل تشدد اور بدامنی کا شکار رہا ہے۔ دہشت گردی اور جوابی کارروائیوں نے مقامی آبادی کو جانی و مالی نقصان پہنچایا، نقل مکانی پر مجبور کیا، اور نسل در نسل خوف میں جینے پر مجبور کیا۔ اب تھکن اور مایوسی کی حالت میں مقامی لوگ ایک بار پھر مذاکرات اور امن کی تلاش میں ہیں، چاہے اس کے لیے کسی بھی حد تک کیوں نہ جانا پڑے۔
تاہم، یہ پہلو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ ماضی میں بھی دہشت گرد گروہ ریاست کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کو توڑ چکے ہیں۔ کوئی ضمانت نہیں کہ اس بار وہ اپنے وعدوں پر قائم رہیں گے۔ امن معاہدے وقتی سکون ضرور دیتے ہیں، مگر اکثر انجام کار ناکام ہو جاتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جن گروہوں کو ریاست، خاص طور پر عسکری ادارے، ’’بھارت کے حمایت یافتہ خوارج‘‘ قرار دے چکے ہیں، کیا ان کے ساتھ مذاکرات کی صورت میں یہ بیانیہ برقرار رکھا جا سکے گا؟
ایک اور بنیادی سوال یہ ہے کہ اگر مذاکرات کامیاب ہو بھی جاتے ہیں تو کیا یہ شدت پسند گروہ ہتھیار ڈالنے اور تشدد ترک کرنے پر آمادہ ہوں گے؟ اگر وہ پرتشدد نظریے سے دستبردار نہیں ہوتے تو ایسا کوئی بھی معاہدہ ریاست کو کمزور کرنے کا سبب بنے گا۔ افغان طالبان سے کئی بار بات چیت کی جا چکی ہے تاکہ افغانستان میں چھپے شدت پسندوں کو روکا جا سکے، مگر زمینی حالات میں کوئی دیرپا بہتری دیکھنے میں نہیں آئی۔یہ صورتحال اس بات کا ثبوت ہے کہ 2001 کے بعد سے ریاست کی انسداد دہشت گردی (Counter-Terrorism) پالیسی پائیدار امن قائم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ہزاروں شہری، فوجی، اور پولیس اہلکاروں کی قربانیوں کے باوجود ہم آج بھی اسی مقام پر کھڑے ہیں جہاں سے آغاز کیا تھا۔ نیشنل ایکشن پلان ہو یا نیشنل ایکشن پلان 2.0، بار بار کی گئی فوجی کارروائیاں ہوں یا شدت پسندی کے خلاف حکمت عملی، سب کچھ وقتی سکون کے بعد پھر وہیں آ کر ٹھہرتا ہے: دوبارہ شدت پسندی، دوبارہ بےگھری، اور دوبارہ خطرہ۔
یہ وقت ہے کہ ریاست، خاص طور پر سیاسی قیادت، سیکیورٹی ادارے، انٹیلی جنس ایجنسیز اور علاقے کے ماہرین ایک جامع اور دیانت دارانہ نظرثانی کریں۔ ہمیں ایک ایسا دیرپا حل تلاش کرنا ہوگا جو اس مسلسل گھومتے چکر کو توڑ سکے، اور پاکستان کو شدت پسندی کے چنگل سے مستقل نجات دلا سکے۔
دہشت گردی کے ناسور نے پاکستان کو دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے جکڑ رکھا ہے۔ ہزاروں قیمتی جانیں ضائع ہو چکی ہیں، کئی گھر اجڑ گئے، مائیں بیٹے، بچے والد، اور بیویاں سہاگ کھو چکی ہیں۔ فوجی، پولیس اہلکار، صحافی، اساتذہ، نمازی، طالبعلم — کوئی محفوظ نہیں رہا۔ اور پھر بھی، جب سوال اٹھتا ہے کہ “ہم نے کیا سیکھا؟” تو جواب اکثر ایک خاموشی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔
یہ افسوسناک حقیقت ہے کہ پاکستان آج بھی دہشت گردی کے خلاف ایک واضح قومی بیانیہ اور متحدہ حکمتِ عملی سے محروم ہے۔ کبھی اسے “دوسروں کی جنگ” قرار دیا جاتا ہے، کبھی اسے “مذہبی شدت پسندی” کا مسئلہ کہا جاتا ہے، اور کبھی قبائلی علاقوں تک محدود کر کے پیش کیا جاتا ہے — حالانکہ سچ یہ ہے کہ دہشت گردی نے پاکستان کے ہر کونے کو لہو لہان کیا ہے۔
جب بھی شدت پسندوں کے خلاف کوئی کارروائی ہوتی ہے، تو ایک طبقہ اسے ظلم کہہ کر ریاست کو ہی کٹہرے میں کھڑا کر دیتا ہے۔ اور جب ریاست خاموش رہتی ہے، تو وہی عناصر ریاست پر کمزوری کا الزام دھرنے لگتے ہیں۔ نتیجہ؟ ایک تقسیم شدہ قوم، ایک الجھی ہوئی پالیسی، اور ایک ایسا دشمن جو ہماری کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر بار بار سر اٹھاتا ہے۔
قوم کب متحد ہوگی؟ شاید جب ہمیں یہ احساس ہوگا کہ دہشت گردی صرف ایک علاقے یا فرقے کا مسئلہ نہیں، بلکہ پورے پاکستان کا مسئلہ ہے۔ جب ہم یہ مان لیں گے کہ کسی بھی مقصد کے لیے ہتھیار اٹھانا ناقابلِ قبول ہے، چاہے وہ مذہبی ہو یا سیاسی۔ جب ہم “اچھے” اور “برے” دہشت گرد کے امتیاز کو مکمل طور پر دفن کر دیں گے۔ جب ہر شہید کی جان کو برابر کا احترام ملے گا، چاہے وہ سپاہی ہو یا استاد، نمازی ہو یا راہگیر۔
یہ بھی ضروری ہے کہ ریاست، سیاسی قیادت، عدلیہ، میڈیا اور سول سوسائٹی — سب ایک صفحے پر آئیں۔ نصف دل سے کیے گئے آپریشن، نامکمل پالیسیز، اور وقتی بیانات اب کافی نہیں۔ ہمیں ایک مربوط، ہمہ جہت اور مسلسل جاری رہنے والی قومی پالیسی کی ضرورت ہے جو صرف ردِ عمل پر مبنی نہ ہو بلکہ شدت پسندی کی جڑوں تک پہنچے — چاہے وہ نظریاتی ہوں یا مالیاتی۔
قوم کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دہشت گردی محض ایک جنگ نہیں بلکہ ایک امتحان ہے — اتحاد کا، شعور کا، قیادت کا، اور عزم کا۔ جب تک ہم اس امتحان میں پورے نہیں اتریں گے، دشمن ہمیں بار بار آزماتا رہے گا۔
تو سوال صرف یہ نہیں کہ دہشت گرد کب رکیں گے — اصل سوال یہ ہے کہ ہم کب جاگیں گے؟
