آج کی تاریخ

واٹر لو(WATERLOO)

تحریر: طارق قریشی

واٹر لو یورپ کے چھوٹے ملک بلیجیئم کے دار الحکومت برسلز کے نزدیک ایک قصبہ ہے آج سے دو سو آٹھ سال قبل یہاں ایک ایسی جنگ لڑی گئی تھی جس نے آنے والے دنوں میں یورپ کے جغرافیہ میں تبدیلی کے حوالے سے اہم اثرات ڈالے۔ اس جنگ کے نتائج کے حوالے سے تو انگریزی زبان میں واٹر لو کا لفظ باقاعدہ ایک محاورے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ جنگ فرانس کے خود ساختہ بادشاہ نپولین جسے تاریخ میں نیپولین بوناپارٹ کے نام سے بھی یا دکیا جاتا ہےکی فوجوں اور اتحادی فوجوں کے درمیان لڑی گئی تھی اتحادی فوج میں اگرچہ مغربی اور مشرقی یورپ کے بہت سے ممالک کی افواج شامل تھیں مگر زیادہ بڑی تعداد کا تعلق دو ممالک سے تھا برطانیہ اور روس۔ اس حوالے سے برطانوی افواج کی قیادت ولنگٹن جو بعدمیں برطانیہ کے وزیراعظم بھی بنے۔ جبکہ روسی دستوں کی قیادت بلوخر نامی جرنیل کر رہا تھا جنگ کی تفصیل سے پہلے کچھ ذکر نپولین کا ۔نپولین1769میں فرانس کے عام سے خاندان میں پیدا ہوا جوانی کے ابتدائی دنوں میں ہی فرانس کی فوج میں سپاہی کے طور پر بھرتی ہوگیا۔ اپنی خدا داد صلاحیتوں کےباعث نپولین نے جلد ہی فرانس کی فوج میں نمایاں حیثیت اختیار کرلی۔1799میں انقلاب فرانس کے بعد پیدا ہونےوالی صورتحال کے نتیجے میں نپولین نے صرف30سال کی عمر میں فرانس کی حکومت سنبھال لی۔ حکومت کا سربراہ بننے کے بعد نپولین نے فرانس کی فوج میں اضافہ کیا فوج کی مکمل تشکیل نو کرتے ہوئے اسے یورپ کی سب سے بڑی جنگی فوج میں تبدیل کر دیا۔ پانچ سال کے قلیل عرصے میں نپولین نے مغربی اور مشرقی یورپ کا ایک وسیع علاقہ فتح کرلیا۔1804 میں ایک باقاعدہ مشن کی صورت میں نپولین نے باقاعدہ اپنے آپ کو فرانس کا بادشاہ قرار دیتے ہوئے بادشاہت کا تاج پہن لیا۔ فرانس کا بادشاہ بننے کے بعدنپولین کا اگلا نشانہ روس کی شاہی سلطنت تھی روس پر اس زمانے میں زار روس لوئی کی حکومت تھی 1812 میں بھر پور تیاری کے ساتھ روس پر حملہ کر دیا ابتدا میں تو نپولین کو معرکہ روس میں کامیابیاں حاصل ہوئیں مگر جیسے جیسے جنگ نے طول پکڑا روس کے ناسازگار موسم کے ساتھ ساتھ نپولین کی فوج میں تھکاوٹ کے آثار نمایاں ہوتے چلے گئے نتیجہ نپولین کو بد ترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ روس سے شکست کھانے پر ایک بار تو اتحادی افواج نے پیرس تک پیش قدمی کرتے ہوئے پیرس پر قبضہ بھی کرلیا۔ نپولین نے پسپائی اختیار کرتے ہوئے نواحی علاقے میں پناہ حاصل کرلی تھوڑے سے ہی عرصے میں نپولین نے اپنی بکھری ہوئی فوج کو جمع کرتے ہوئے دوبارہ پیرس کا قبضہ حاصل کرلیا ۔ پیرس میں نپولین کا عوام نے بھر پور استقبال کیا ۔ اس عوامی استقبال نے نپولین کے اعتماد میں بے حد اضافہ کیا۔ نپولین نے معرکہ روس میں اپنی شکست کا داغ دھونے کے لیے ایک بارپھر تیاری کے ساتھ اتحادی افواج کے خلاف فیصلہ کن معرکہ کی تیاری شروع کی۔ نپولین کے اس حملہ کا بھر پور جواب دینے کے لیے اتحادی افواج بھی زور شور کی تیاری کے ساتھ سامنے آئے اتحادی افواج میں اگرچہ یورپ کے مختلف ممالک کی افواج شامل تھیں مگر اس کا بڑا حصہ برطانیہ اور روس کے فوجیوں پر مشتمل تھا برطانوی دستوں کی قیادت ولنگٹن جبکہ روسی دستوں کی قیادت بلوخر کر رہے تھے ۔ جنگ کے آغاز پر ہی نپولین کی جانب سے کی جانے والی سنگین غلطیوں نے اتحادی فوجوں کو بالادستی حاصل ہوگئی نپولین کو اس جنگ میں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا نپولین کی نصف سے زائد فوج کے سپاہی اس جنگ میں ہلاک ہو گئے ۔ جنکی تعداد تاریخ میں30ہزار سے زائد بیان کی جاتی ہے نپولین نے جان بچا کر فرار ہونے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوسکا گرفتار ہوا باقی زندگی سینٹ ہیلنا کے قید خانے میں گزاری۔ 1821میں نپولین نے صرف51سال کی عمر میں وفات پائی۔ واٹر لو کے معرکے نے نپولین کے مقدر کا بھی فیصلہ کر دیا ساتھ ہی آنے والے دنوں میں یورپ کے نقشے میں بھی بڑی تبدیلی کا آغاز کر دیا۔ نپولین کی طرف سے زور شور کے ساتھ واٹر لوکی جنگ اور بعد میں اس کی جانے والی سنگین غلطیوں کے اثرات کے باعث واٹر لو کا یہ چھوٹا سا قصبہ آج دو صدیاں گزرنے کے باوجود دنیا بھر میں مشہور ہے جبکہ انگریزی زبان میں کسی بھی شخص کی بدترین ناکامی کے حوالے سے واٹر لو ایک محاورے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس ساری تمہید اور پس منظر کی آج ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ آج ملک عزیز میں بھی ایک واٹر لو نظر آرہاہے۔ ایک سال قبل قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کے بعد پاکستانی نپولین جناب عمران خان کو جس طرح عوام میں پذیرائی ملی تھی اس کی مثال پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اس سے پہلے نہیں ملتی۔ عوام کی بھر پور پذیرائی سے ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ عمران خان اپنی سابقہ غلطیوں سے اجتناب کی کوشش کرتے اپنی پارٹی کے دیگر قائدین اور کارکنان سے مشاورت کرتے ہوئے اجتماعی دانش کے تحت مستقبل کے فیصلے کرتے مگر اس کے برعکس عمران خان نے سیاسی قائد کے بجائے ایک بادشاہ والا رویہ اختیار کرتے ہوئے اپنے ساتھیوں اور بہی خواہوں کے ہر اچھے مشورے کو پس پشت ڈال دیا۔ انہیں مشہورہ دیاگیا کہ قومی اسمبلی سے استعفے نہ دیں انہوں نے نہیں مانا وقت نے فیصلہ غلط ثابت کیا بعد میں عمران خان نے فیصلہ واپس لینے کے لیے بڑے جتن کیے جو آج بھی جاری ہیں دوسری بڑی غلطی دو صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل تھی اس حوالے سے عمران خان کو جماعت میں موجود قائدین کی اکثریت نے انہیں قائل کرنے کی کوشش کی کہ یہ اسمبلیاں اور صوبائی حکومتیں تحریک انصاف کا مضبوط مورچہ ہیں مگر عمران خان نے بادشاہ بنتے ہوئے تمام مشورے رد کر دیئے اس طرح اپنے آپ کو بھی اور اپنے کارکنان کو بڑی مصیبت میں ڈال دیا۔ پے در پے سیاسی ناکامیوں نے عمران خان کو پریشانی کے ساتھ ساتھ جھنجلاہٹ کاشکار کر دیا۔ عمران خان نے سیاسی جنگ کو ذاتیات کی جنگ میں تبدیل کر دیا سیاسی مخالفین سے زیادہ اب عمران خان کا ہدف اب عسکری ادارہ اور اس کی قیادت تھی تحریک انصاف کے کارکنان کی نفرت کا بھی سارا ر خ اب سیاستدانوں سے ہٹ کر عسکری ادارہ اور اس کی قیادت تھی۔ فکری تضادات کے ساتھ ساتھ سیاسی تربیت کے فقدان نے تحریک انصاف کے کارکنان کی ساری جدوجہد کو سیاسی پرامن جدوجہد کے بجائے ایک پرتشدد ہجوم میں تبدیل کر دیا۔ پہلے زمان پارک میں وارنٹ کی تکمیل پر آنے والی پولیس بعد میں اسلام آباد میں عمران خان کی عدالت میں حاضری کے موقع پر تشدد کے مظاہروں نے تحریک انصاف کے کارکنان کو مکمل طور پر سیاسی کارکنان کے بجائے شدت پسند ہجوم میں تبدیل کر دیا۔ عمران خان نے بطور سیاسی قائد ان کاروائیوں کو روکنے اور اس کی مذمت کرنے کی بجائے ان واقعات کو اپنے حق میں فخریہ انداز میں پیش کرتے ہوئے تشدد کی ان کاروائیوں پر کارکنان کی مزید ہلہ شیری کی۔ آخرکار9مئی کو ماضی کے ان تمام واقعات کے تسلسل اور عمران خان کا مستقبل عسکری قیادت کو نشانہ بنانے کا ہولناک نتیجہ سامنے آگیا۔9مئی بلاشبہ عمران خان کا ہی پوری تحریک انصاف کا واٹر لو ثابت ہوا۔ نپولین کی طرح اندازوں کی شدید غلطیوں نے عمران کو اس واٹر لو کا سامنا کرنا پڑا۔ تحریک انصاف کے کارکنان اور سیاسی قیادت کو بد ترین پسپائی کا سامنا ہے خود عمران خان زمان پارک میں سینٹ ہیلنا کے قید خانے کی طرح محصور ہیں۔ زمان پارک کے باہر اب سیاسی کارکنان کے رونق میلے کے بجائے پولیس کی گاڑی موجود ہے۔ درمیانے درجہ کی قیادت میں چند افراد قید میں ہیں کچھ مفرور ہیں اکثریت نئے ٹھکانوں کی تلاش میں ہیں۔ جنگیں ہمیشہ سپاہیوں کے ذریعے لڑی جاتی ہیں مگر جنگوں میں ہار جیت کا فیصلہ قیادت کی دانش اور فیصلوں سے ہوتا ہے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں