بہاولپور (کرائم سیل) بہاولپور تحصیل صدر کے علاقے لال سوہانراچک نمبر 38/BC میں ریلوے اراضی پر قائم کمرشل دکانوں پر قبضے کے حوالے سے کارروائی کی کوشش اس وقت ناکام ہوگئی جب اے سی صدر، ریلوے انسپکٹر آف ورکس دیگر ریلوے ملازمین، محکمہ مال اور ریلوے و پیرا فورس کی بھاری مشینری کے ہمراہ اڈا لال سوہانرا پر تقریباً 25 دکانوں کے خلاف کارروائی کے لیے موقع پر پہنچے۔تاہم مبینہ سیاسی آشیرواد کی بنا پر ریلوے اور محکمہ مال کے افسران رقبہ واگزار کروانے میں مکمل طور پر ناکام رہے۔ اطلاعات کے مطابق بہاولپور سے تعلق رکھنے والے ایک بااثر حکومتی امیدوار کی صرف ایک کال پر ناجائز قابضین کو مزید وقت دے دیا گیا تاکہ وہ عدالت یا دیگر مجاز فورمز سے رجوع کر سکیں۔ یہ عمل کروڑوں روپے مالیت کی سرکاری اراضی پر ناجائز قبضے کو تحفظ دینے کی واضح مثال بن گیا ہے۔یاد رہے کہ لال سوہانرا اڈے پر بااثر افراد نے ریلوے کے سابقہ انسپکٹر آف ورکس عثمان اعجاز کی ملی بھگت سے دکانیں تعمیر کر کے قبضہ جما رکھا ہے۔ ان میں سعید بک ڈپو، اللہ پاک جنرل اسٹور، بلال فوجی، شہزاد ورکشاپ، لیاقت الیکٹریشن وغیرہ شامل ہیں۔سابقہ انسپکٹر آف ورکس کی اس غیر قانونی سرگرمی میں سابقہ ڈی ای این تھری، ناصر حنیف، ان کی پشت پناہی کرتے رہے۔ ان کے تبادلے کے بعد جب نئے انسپکٹر آف ورکس نے نئے ڈی ای این تھری کے احکامات پر قبضے ختم کروانے کی کوشش کی تو محکمہ مال کے حلقہ پٹواری، وقاص مقبول، میدان میں آ گئے۔ذرائع کے مطابق پٹواری وقاص نے مبینہ طور پر ناجائز قابضین سے بھاری رقوم وصول کر کے ڈپٹی کمشنر بہاولپور کو ایک مبہم رپورٹ ارسال کی ہے۔ اس رپورٹ میں ناجائز قابضین کو تحفظ دینے کے لیے یہ لکھا گیا ہے کہ “قبضہ مافیا کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے یہ رقبہ لیز پر حاصل کیا ہے اور ان کا کیس عدالت میں زیرِ سماعت ہے” — جو کہ سراسر جھوٹ پر مبنی ہے۔ کیونکہ موجودہ انسپکٹر آف ورکس نے واضح طور پر بتایا ہے کہ ریلوے کی جانب سے اس جگہ کسی کو کوئی لیز جاری نہیں کی گئی۔محکمہ مال کے باخبر ذرائع نے ڈپٹی کمشنر بہاولپور سے مطالبہ کیا ہے کہ پٹواری وقاص کے خلاف کارروائی کی جائے اور اسے ہدایت دی جائے کہ وہ ایک جامع، مفصل اور غیر جانبدار رپورٹ مرتب کرے، جس میں واضح کیا جائے کہ کن کن افراد نے ریلوے اراضی پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے۔یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ ناجائز قابضین نے محکمہ مال، ریلوے اور واپڈا کے بعض اہلکاروں کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے جعلی فردات اور اسٹامپ پیپرز کے ذریعے واپڈا سے میٹر حاصل کیے۔ ذرائع کے مطابق، ایس ڈی او سیٹلائٹ سب ڈویژن اور ایل ایس نے فی میٹر ایک لاکھ روپے رشوت کے عوض، بغیر ریلوے کی این او سی کے، میٹرز لگوا دیے۔سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اتنی واضح نشاندہی اور بے ضابطگیوں کے باوجود وفاقی تحقیقاتی ادارے (FIA) نے مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے، جو کہ خود ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔
