طارق قریشی
فاروق لغاری کے ہاتھوں محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کی معزولی سے قبل بھٹو خاندان کو ایک بار پھر بد ترین سانحہ دیکھنا پڑا۔ کراچی میں مرتضیٰ بھٹو کو پر اسرار طریقے سے مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک کر دیا گیا۔ بھٹو خاندان خاص طور پر ذوالفقار علی بھٹو کی بیوہ محترمہ نصرت بھٹو کے لیے یہ گہرا صدمہ بد ترین اثرات کا حامل ٹھہرا۔ 1997ء میں انتخابات میں توقع کے مطابق طے شدہ نتائج بھی حاصل ہو گئے ۔نوازشریف اپنے مشہور زمانہ بھاری مینڈیٹ کے ساتھ مسند اقتدار پر براجمان ہو گئے۔ سب ایک ہی صفحہ پر تھے کہ اچانک چیف جسٹس سپریم کورٹ سجاد علی شاہ نے نواز شریف کے خلاف توہین عدالت کے الزام میں کارروائی کا آغاز کر دیا۔ پہلے پہل بات معمولی ہی لگتی تھی مگر آگے چل کر یہ ساری کارروائی غیر معمولی رخ اختیار کر گئی وفاقی حکومت اور سپریم کورٹ آمنے سامنے آ گئیں۔ چیف جسٹس نے صدر پاکستان اور آرمی چیف سے مدد طلب کی مگر چیف جسٹس کے علاوہ سب ایک صفحے پر تھے۔ سو چیف جسٹس کو ہی گھر جانا پڑا۔ بظاہر سب کچھ نواز شریف کے حق میں نظر آ رہا تھا اچانک چیف آف آرمی سٹاف جنرل جہانگیر کرامت کی ایک تقریب میں نیشنل سیکورٹی کونسل کی تجویز نے نواز شریف کے مزاج کو تبدیل کر دیا۔ جہانگیر کرامت نے وزیراعظم کے اس سخت رد عمل کے نتیجے میں عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ پاکستان کی تاریخ میں آج تک یہ پہلا اور آخری استعفیٰ تھا جو کسی آرمی چیف نے دیا۔ بڑی چھان پھٹک کے بعد نئے چیف کا تقرر عمل میں آیا۔ جنرل پرویز مشرف نئے آرمی چیف بن گئے۔ اسی دوران نواز شریف نے نئی سیاسی چال چلی۔ پیپلزپارٹی کی صدر لغاری سے ناراضگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آئینی ترمیم منظور کرا لی جس کے تحت ایک بار پھر صدر سے اسمبلی معزول کرنے کے اختیارات کا خاتمہ کر دیا گیا۔ فاروق لغاری بھی استعفیٰ دے کر گھر چلے گئے۔ نئے صدر رفیق تارڑ آ گئے۔ نئے آرمی چیف نئے صدر نئے چیف جسٹس کے ساتھ نواز شریف نے اپنے آپ کو ناقابل تسخیر سمجھنا شروع کر دیا۔ ہندوستان سے دوستی کا بڑا قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ ہندوستان کی جانب سے وزیراعظم واجپائی کی جانب سے بھی مثبت جواب آیا۔ اس سارے عمل میں ایک بار پھر نواز شریف اپنی طاقت اور پاکستانی ا سٹیبلشمنٹ کی سوچ بارے غلط اندازہ لگا بیٹھے۔ واجپائی کے دورہ لاہور کے دوران اسٹیبلشمنٹ نے اپنی پرانی اتحادی جماعت جماعت اسلامی کے ذریعے ہنگاموں کے ذریعے نواز شریف کے خلاف مہم کا آغاز کر دیا۔ آگ چل کر سانحہ کارگل نے نواز شریف کو ذہنی طور پر خلجان کا شکار کر دیا۔ کلنٹن سے ذاتی تعلقات کی بنیاد پر کارگل جنگ کے بھیانک اثرات سے تو ملک کو نکال لیا مگر اب نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ ایک بار پھر آمنے سامنے آ گئے۔ پرویز مشرف سے صلح صفائی کی نواز شریف کی جانب سے کی جانے والی تمام کوششیں ناکامی کا شکار ہیں۔ نواز شریف نے آرمی چیف کو معزول کرنے کی کوشش کی مگر دیر ہو چکی تھی۔ نواز شریف کے اپنی سیاسی طاقت بارے غلط اندازوں نے پہلے ہی نواز شریف کو سیاسی تنہائی کا شکار کر دیا تھا اس ساری صورتحال میں اسٹیبلشمنٹ کے لیے سیاسی حکومت کے خلاف وار کرنا آسان ٹارگٹ تھا۔ صدر کے ذریعے حکومت معزول کرنے کا راستہ بند ہو چکا تھا۔ اسٹیبلشمنٹ کو بیس سال بعد ایک بار پھر ملک کو مارشل لاء کے ذریعے کنٹرول کرنے کا فیصلہ لینا پڑ گیا۔ اس بار عدالتی جادوگر شریف پیر زادہ نے اپنی پٹاری سے نیا فارمولا نکالا مارشل لاء کے اوپر نقاب چڑھا کر چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے بجائے چیف ایگزیکٹو کا نام دے دیا گیا۔ 20 کروڑ سے زائد آبادی والے ملک کو ایک پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی میں تبدیل کر دیا گیا۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے ایک بار پھر اپنی طاقت اور جادوگری کو ثابت کر دیا۔ پرویز مشرف کو ابتداء میں تو دنیا بھر میں اچھا رد عمل نہ مل سکا۔ دنیا بھر میں پاکستانی فوج کے ایک جمہوری حکومت کو بذریعہ طاقت ختم کرنے ملک میں حکومت سنبھالنے کے اقدام کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا گیا۔ اسی دوران نائین الیون کے واقعہ نے دنیا تبدیل کر دی۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور پرویز مشرف کی بھی لاٹری نکل آئی۔ امریکہ کے مطالبات کو بغیر سوچے سمجھے تسلیم کرنے پر پرویز مشرف ایک بار پھر ماضی کے فوجی آمروں کی طرح امریکہ اور مغرب کی ڈارلنگ بن گئے۔ اس لاٹری نے پرویز مشرف کو شہنشاہ پاکستان بنا دیا۔ اب پرویز مشرف کا حکم ہی قانون تھا۔ ان کی مرضی و منشاء ہی آئین تھا۔ سپریم کورٹ میں آزاد منش منصفوں کو گھر بھیج کر پاکستانی عدلیہ جوکروں اور درباریوں کے حوالے کر دی گئی۔ انعام کے طور پر جوکروں نے پرویز مشرف کو ذاتی حکم کے ذریعے آئین میں تبدیلی کی اجازت دے دی۔ نائین الیون نے دنیا بھر میں تو جو تبدیلی کی ہو گی پرویز مشرف کو اس تبدیلی نے ایک ایسا سربراہ بنا دیا جس کے اختیارات بھی لا محدود تھیں تو خواہشات بھی لا محدود، پرویز مشرف نے ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین پیپلزپارٹی مسلم لیگ ن سے جان چھڑانے کا فیصلہ کر لیا ایک طرف مسلم لیگ ن کی قیادت کے خلاف سخت اقدامات دوسری طرف پیپلزپارٹی کے خلاف کارروائی۔ آصف زرداری پہلے ہی جیل میں تھے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نواز شریف کے دور میں ان چہیتے سیف الرحمان کے ہاتھوں تنگ آ کر دوبئی میں قیام پذیر تھیں۔ نواز شریف کو ایک خود ساختہ مقدمے میں عمر قید کی سزا سنا کر جماعت کے باقی لوگوں کو پیغام دے دیا گیا۔ نواز شریف کی خوش قسمتی امریکہ اورسعودی عرب کی باہمی مدد سے ان کی جان بچ گئی۔ سعودی عرب میں انہیں جلا وطنی میں رہنے کی اجازت مل گئی، دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے خلاف کارروائی کے بعد پرویز مشرف نے سابقہ فوجی ڈکٹیٹروں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پہلے بلدیاتی نظام کے ذریعے ملک میں اپنے من پسند لوگوں کو آگے لایا گیا اس کے بعد انہی بلدیاتی اداروں کے سربراہوں کے ذریعے اپنے لیے صدارتی ریفرنڈم کا جعلی کارروائی کا بندوبست کیا گیا۔ پرویز مشرف ایک طویل منصوبے کے ساتھ آگے بڑھ رہے تھے۔ بلدیاتی انتخابات کے بعد صدارتی ریفرنڈم میں کامیابی کے بعد اگلا مرحلہ تھا ملک میں عام انتخابات، ماضی کی طرح اسٹیبلشمنٹ کے وہی پرانے حربے سیاسی جماعتوں میں توڑ پھوڑ کچھ نئی سیاسی جماعتوں کے قیام کچھ نئے سیاسی اتحاد اور کچھ نئے سیاسی حلیف پنجاب میں اسٹیبلشمنٹ کا پرانا آزمودہ خاندان، چوہدری آف گجرات ،سندھ میں پیر پگارا اور ایم کیو ایم جب کہ خیبرپختونخوا میں مستقل اتحادی مذہبی جماعتوں کا اتحاد بنوا دیا گیا۔ 2002ء میں عام انتخابات کا انعقاد عمل میں آ گیا۔ کچھ سیاسی انتظام کچھ جنرل احتشام ضمیر کے انتظامات تو کچھ نیب کی طاقت کا استعمال ظفر اللہ جمالی پرویز مشرف کے سیاسی شہوار بن گئے۔ ظفر اللہ جمالی نے تابعداری کی اعلی ترین مثال قائم کرنے کی کوشش کی۔ سب کے سامنے آئینی پوزیشن کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پرویز مشرف کو اپنا بگ باس قرار دیا۔ اس کے باوجود سیاست دان کے ساتھا سٹیبلشمنٹ کا ساتھ زیادہ عرصے نبھ نہ سکا۔ ظفر اللہ جمالی گھر گئے۔ اس بار ایک غیر سیاسی شخص شوکت عزیز کو سیاسی چولا پہنا کر وزیراعظم کے عہدے پر بٹھایا گیا۔ اسٹیبلشمنٹ کےلیے اس انتظام کے بعد سب سوراخ بند ہو گئے تھے۔ پرویز مشرف اگلی ٹرم کی منصوبہ بندی میں مصروف تھے۔ پرویز الٰہی جلسوں میں انہیں وردی کے ساتھ دس مرتبہ منتخب کرانے کی نوید سناتے پھر رہے تھے۔ اسی دوران تبدیلیوں کا آغاز ہو گیا۔ پہلے نواز شریف اوربے نظیر بھٹو کے درمیان لندن میں میثاق جمہوریت بعد میں امریکہ کے دبائو پر پرویز مشرف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے درمیان معاہدہ جس کے تحت اگلے انتخابات سے قبل محترمہ کی واپسی کی ضمانت، ایک طرف یہ سب کچھ ہو رہا تھا تو دوسری طرف ملک کے اندر اسٹیبلشمنٹ کے اندر ہی سانپ سیڑھی کا کھیل شروع ہو گیا۔ افتخار چوہدری کے خلاف اٹھائے جانے والے قدم نے پرویز مشرف کو جال میں پھنسا دیا۔ افتخار چوہدری کو سامنے کرتے ہوئے ساری سیاسی جماعتوں کو پرویز مشرف کے خلاف تحریک چلانے کا سنہری موقع دے دیا۔ اسٹیبلشمنٹ کا ایک بڑا حصہ اس تحریک کی غیر مرئی طور پر مدد کر رہا تھا۔ پرویز مشرف کا اعلان کردہ نئے آرمی چیف جو اس وقت آئی ایس آئی کے سربراہ تھا ان کے حوالے سے بھی کچھ باتیں گردش میں تھیں جو کچھ بھی تھا اس بار سانپ سیڑھی کے کھیل میں سانپ بھی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں تھا جبکہ سیڑھی بھی اسٹیبلشمنٹ کے کنٹرول میں ہی تھی۔