اسلام آباد: سابق وزیرِاعظم عمران خان کو اب تک پانچ مختلف مقدمات میں سزائیں سنائی جا چکی ہیں، تاہم کسی بھی کیس میں ہائیکورٹ کی جانب سے سزا کی توثیق نہیں کی گئی، جس سے ان عدالتی فیصلوں کی شفافیت پر سنجیدہ سوالات جنم لے رہے ہیں۔
قانونی ماہرین اور پی ٹی آئی کے وکلاء کا کہنا ہے کہ مقدمات کی کارروائی کے دوران آئین کے آرٹیکل 10 اے کے تحت حاصل بنیادی قانونی حقوق کو نظرانداز کیا گیا، جس کے باعث عدالتی کارروائی کی شفافیت اور منصفانہ ٹرائل پر شبہات بڑھتے جا رہے ہیں۔
سینئر وکلاء کا تجزیہ ہے کہ گزشتہ دو برسوں میں پی ٹی آئی قیادت عمران خان کی رہائی کے لیے کوئی مؤثر قانونی حکمت عملی وضع کرنے میں ناکام رہی ہے، مگر اس کے باوجود عوام میں یہ تاثر زور پکڑ رہا ہے کہ عمران خان سیاسی انتقام کا نشانہ بنے ہوئے ہیں، جس سے ان کی جماعت کو سیاسی فائدہ پہنچ رہا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جب تک عمران خان کو سیاسی مظلوم کے طور پر دیکھا جاتا رہے گا، تب تک ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے لیے انتخابات میں ان کا مقابلہ کرنا چیلنج ہی رہے گا۔ اگر مخالف جماعتیں انہیں سیاسی میدان میں شکست دینا چاہتی ہیں تو انہیں سیاسی انتقام کے بیانیے کا توڑ کرنا ہو گا۔
توشہ خانہ کیس میں سنائے گئے تین سال قید کے فیصلے کو بھی وکلاء نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے، ان کا کہنا ہے کہ فیصلے میں نہ صرف غیر معمولی عجلت دکھائی گئی بلکہ دفاعی گواہوں کے بیانات بھی ریکارڈ نہیں کیے گئے، جو کہ منصفانہ ٹرائل کے اصولوں کے منافی ہے۔
حالیہ دنوں سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ نے بھی ذوالفقار علی بھٹو کیس کے صدارتی ریفرنس میں ایک اضافی نوٹ جاری کیا، جس میں انہوں نے واضح کیا کہ دباؤ کے باوجود ججوں کو آئینی حلف کی پاسداری کرتے ہوئے جرات کا مظاہرہ کرنا چاہیے، کیونکہ ایک آزاد عدلیہ ہی جمہوریت اور شہری آزادیوں کی حقیقی محافظ ہو سکتی ہے۔
