تحریر: طارق قریشی
نواز شریف 1990 کے انتخابات کے نتیجے میں وزیراعظم بن گئے اور اسمبلی میں انہیں واضع اکثریت بھی مل گئی پیپلز پارٹی جبکہ محترمہ بے نظیر کو ایک مختصر تعداد کے ساتھ اپوزیشن نشستوں پر بیٹھنا پڑا۔ پنجاب میں غلام حیدر وائیں کی صورت میں ایک کمزور وزیراعلیٰ بنا کر سارے انتظامی امور شہباز شریف کے حوالے کر دیئے گئے واضح اکثریت تمام صوبوں میں مرضی کی حکومتیں اسٹیبلشمنٹ کا مکمل ساتھ بظاہر سب ٹھیک تھا مگر پھر وہی ہوا جو پاکستانی سیاست اور حکمرانوں کی تاریخ ہے نواز شریف نے آہستہ اہستہ پر پرزے نکالتے ہوئے تابعداری سے خود مختاری کا راستہ اختیار کرنا شروع کر دیا۔ پہلا ٹکرائو جنرل اسلم بیگ سے عراق کویت جنگ کے حوالے سے سامنے آیا نواز شریف پاکستانی فوج کو کویت کی حمایت میں قائم فوجی اتحاد میں شامل کرنا چاہتے تھے مگر جنرل اسلم بیگ اڑ گئے نواز شریف کی سعودی حکمرانوں کو کرائی گئی یقین دہانی ناکامی میں تبدیل ہو گئی جنرل اسلم بیگ تو تھوڑے عرصے بعد چلے گئے مگر اسٹیبلشمنٹ کےدل میں نواز شریف بارے ایک پھانس سی چبھ گئی ۔ اس دور میں صدارت کے منصب پر غلام اسحق خان فائز تھے اور وہی اسٹیبلشمنٹ کے سب سے بڑے نمائندے تھے۔ ان کے پاس آئین میں ترمیم شدہ شق 2B-58 کی طاقت بھی موجود تھی اسی طاقت کے ذریعے محترمہ بےنظیر بھٹو کی حکومت کو بھی صرف 20 ماہ میں فارغ کر دیاگیا تھا۔ ان ساری باتوں کے باوجود نواز شریف اس خوش فہمی کا شکار تھے کہ اسٹیبلشمنٹ کے پاس ان کے علاوہ کوئی راستہ ہی نہیں۔ پیپلز پارٹی کے خلاف جاری پروپیگنڈے کے علاوہ ان کی مرکزی قیادت کو سنگین مقدمات کا سامنا تھا۔ آصف علی زرداری غبن ڈکیتی اور قتل جیسے سنگین مقدمات میں گرفتار تھے ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کا زیادہ وقت ان مقدمات کی پیروی میں گزرتا تھا۔ نواز شریف یہ سمجھتے تھے کہ ایسی صورتحال میں تابعداری کے راستے کو ترک کر دینے سے کچھ نہیں ہوسکتا۔ اسٹیبلشمنٹ کو کمزور اور اپنے آپ کو آخری چوائس سمجھنا نواز شریف کی وہ غلط فہمی تھی جس کا شکار اس سے پہلے محمد خان جونیجو بھی ہو چکے تھے نواز شریف کے پہلے حملے کے طور پر نئے آرمی چیف جنرل آصف نواز کو ہٹا کر اپنی مرضی کے متبادل جنرل کو آرمی چیف بنانے کی مہم کا آغاز کر دیا۔ جواب میں جنرل آصف نواز نے اپنی صف بندی شروع کر دی۔ غلام اسحق خان نے نواز شریف کو اس مہم سازی سے باز رکھنے کی کوشش کی مگر نواز شریف تو تابعداری کے سفر کا اختتام کرکے خود مختاری کے گھوڑے پر سوار ہونےکی جلدی میں تھے۔ ملک میں ایک بار پھر مارشل لا کی آہٹوں کی گونج سنائی دینے لگی۔ قدرت نے آصف نواز کو زندگی کی مہلت نہ دی ان کی ناگہانی موت نے مارشل لا کے سائے تو ختم کر دیئے مگر اب نواز شریف بھی اسٹیبلشمنٹ کی پسندیدہ فہرست سے نکل چکے تھے۔ نواز شریف کو اس کے باوجود یہ غلط فہمی تھی کہ پیپلز پارٹی کے خلاف کئے جانے والے اقدامات کے بعد پیپلز پارٹی اور اسٹیبلشمنٹ کی صلح کا کوئی امکان نہیں اس لیے ان کے اقتدار کو بھی کوئی خطرہ نہیں دوسری طرف جیل میں قید آصف زرداری سے اسٹیبلشمنٹ کے مذاکرات کامیاب ہو چکے تھے صرف محترمہ بے نظیر بھٹو کو قائل کرنے کی ضرورت تھی۔ رکاوٹ صرف پیپلز پارٹی کا 25 سالہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ کردار تھا۔ محترمہ کے سامنے سب سے بڑی رکاوٹ پیپلز پارٹی کے اس کردار کے ساتھ ساتھ ان کے کارکنوں کے مزاج کی بھی تھی۔ آصف زرداری نے آخر کار محترمہ کو زمینی حقائق اور اسٹیبلشمنٹ کی پاکستانی سیاست میں عملداری کے حوالے سے اس بات پر مجبور کر دیا کہ اسٹیبلشمنٹ سے صلح کر لی جائے۔ آصف زرداری نے اس صلح کے لیے سب سے بڑی شرط اپنی رہائی اور وزارت کے حلف کی رکھی اسٹیبلشمنٹ تو پہلے ہی سانپ سیڑھی کے اس کھیل کو مستقل دوستی یا مستقل دشمنی کے اصول سے مبرا رکھتی تھی سو اس نے کل کے مخالفین سے آج کے دوستوں سے جان چھڑانے کے لیے صلح کر لی۔ نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ کر دیاگیا اب کردار بدل گئے تھے پیپلز پارٹی اسٹیبلشمنٹ کی اتحادی جب کہ نواز شریف اسٹیبلشمنٹ محالف بیانیے کے ساتھ میدان میں آ گئے۔ نواز شریف نے عدلیہ کی مدد سے 26 دن میں ہی حکومت واپس لے لی مگر اب اسٹیبلشمنٹ سے ان کی صلح ممکن نہ تھی اسٹیبلشمنٹ کو نئے اتحادی مل گئے تھے اب پرانے مہروں کی ضرورت نہ تھی عدلیہ سے بحالی کچھ کام نہ آئی مگر نواز شریف جاتے جاتے اخلاقی فتح حاصل کر گئے کہ اپنے ساتھ غلام اسحق خان کی طویل اننگ کا بھی خاتمہ کرا گئے۔1993 کے انتخابات میں نتائج کے حوالے سے کوئی سسپنس تھا نہ الجھائو نوشتہ دیوار تھا کہ یہ باری محترمہ کی ہے وزارت عظمی کا منصب ان کا انتظار کر رہا ہے ۔ بات صرف اتنی تھی کہ نواز شریف کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا نواز شریف پنجاب کے نمائندے کے طور پر پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ کے نعرے کو پنجاب میں مقبول عام درجے تک پہنچا دیا۔ انتخابی نتائج توقع کے مطابق پیپلز پارٹی کے حق میں ہی نکلے محترمہ وزیراعظم بن گئیں۔ پنجاب میں ان کے اتحادی منظور وٹو کو وزارت اعلیٰ کا منصب مل گیا۔ یہ سب اپنی جگہ مگر نواز شریف اپنے پہلے سیاسی امتحان میں غیر متوقع طور پر بہت زیادہ کامیاب رہے۔ پنجاب میں خاص طور پر بڑے شہروں کے ساتھ ساتھ کراچی ‘ حیدر آباد میں بھی نواز شریف کے اینٹی اسٹیبلشمنٹ نعرے نے عوام میں مقبولیت حاصل کر لی۔ اس طرح پنجاب کے ساتھ ساتھ نواز شریف کراچی اور حیدر آباد سے بھی چند نشستیں لے کر ایک بڑی تعداد کے ساتھ ساتھ اسمبلی پہنچ گئے۔ ملک میں بہ ظاہر دو جماعتی سیاسی نظام قائم ہوگیا تھا۔محترمہ بے نظیر بھٹو نے وزیراعظم بننے کے بعد فاروق لغاری کو صدارت کے منصب پر بٹھا دیا۔ بظاہر اب اسمبلی تحلیل کرنے کی طاقت بھی اسٹیبلشمنٹ کے بجائے سیاست دانوں کے پاس آ گئی تھی ۔ بس یہی وہ غلط فہمی تھی جس نے آصف زرداری کو مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے پرخطر راستے پر گامزن کر دیا۔ آصف زرداری نے پارٹی میں بھی اور سیاسی اتحادیوں میں بھی اسٹیبلشمنٹ پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کا آغاز کر دیا۔ ایوان صدر میں پارٹی رکن کی موجودگی سے پیپلز پارٹی کے یہ گمان میں بھی نہ تھا کہ فاروق لغاری بھی غلام اسحق خان کی طرح ان کے خلاف کوئی قدم اٹھا سکتے ہیں۔ دوسری طرف اپنی طرف بڑھتے خطرات دیکھ کر اسٹیبلشمنٹ نے وہی پرانا اصول یعنی کل کے دشمن آج کے دوست اور آج کے دوست کل کے دشمن کے مطابق نواز شریف سے دوبارہ صلح کی کوششوں کا آغاز کر دیا۔ چوہدری نثار علی خان اپنے خاندانی فوجی پس منظر کے حوالے سے دونوں طرف کی نمائندگی کر رہے تھے کچھ گلے شکوے کچھ نئی ضمانتوں کے ساتھ آئندہ مل جل کر چلنے کے وعدوں وعید کے ساتھ نئے اتحاد پر دونوں طرف سے رضا مندی حاصل کرلی گئی۔ فاروق لغاری آصف زرداری کے رویے سے پہلے ہی شاکی تھے باقی کام مشترکہ دوستوں کے ذریعے مکمل کیاگیا۔ مستقبل کے بننے والے انتظام میں فاروق لغاری کے کردار بارے کچھ دعوئوں کچھ ضمانتوں کے بعد کھیل کا میدان سج گیا۔ سانپ بھی آ گیا اور سیڑھی بھی سانپ کا شکار بے نظیر بھٹو کی حکومت جبکہ اقتدار کی سیڑھی ایک بار پھر نواز شریف کے حصے میں آ گئی۔ محترمہ کے لیے سب سے زیادہ ناقابل یقین فاروق لغاری کی جانب سے حکومت کے خاتمے کا اقدام تھا مگر یہ ہو چکا تھا کہ کھیل بھی تو جاری رکھنا تھا۔