آج کی تاریخ

جانبداری اور غیر جانبداری کا کھیل

تحریر:طارق قریشی

انسان کو رب کریم نے اپنی تخلیق کردہ تمام مخلوقات میں اشرف المخلوقات کا درجہ دیا اس اعزاز کے عطا کرنے میں بنیادی وجہ انسان کو عطا کردہ عقل و شعور کی نعمت ہے۔ انسان کو اللہ رب کریم نے پیدائشی طور پر اچھائی اور برائی پہچاننے کی صلاحیت عطا کی ہے اس کے ساتھ ساتھ انسان کو اچھائی اور برائی کی تمیز کے بعد قوت فیصلہ کی صلاحیت سے بھی نوازا۔ اس خاصیت کی بنا پر کوئی انسان یہ دعوی کرے کہ میں یہ فیصلہ نہیں کر سکتا کہ غلط کیا ہے اور درست کیا ہے تو میری دانست میں دو ہی باتیں ہو سکتی ہیں کہ یا تو وہ نارمل شخص نہیں ہے اور ہمارے معاشرے میں ایسے شخص کو سپیشل پرسن یعنی خاص آرمی کا ٹائٹل دیاجاتا ہے دوسری صورت میں وہ شخص منافقت سے کام لیتے ہوئے اپنے ظاہری یا پوشیدہ مفادات کے تحفظ کی خاطر اپنی رائے کو عیاں نہیں کرنا چاہتا۔آج کل اگر آپ اپنے اردگرد نظر ڈالیں تو منافقت کا لبادہ اوڑھے ایسے افراد ہر شعبہ زندگی میں نظر آئیں گے کہ جو مفادات کے تحفظ میں اپنی رائے دینے میں یا تو گریز کریں گے یا پھر گول مول الفاظ میں وہ بھی درست ہے اور یہ بھی درست غلط یہ بھی ہے مگر غلط وہ بھی ہوسکتاہے بات تو اس کی درست ہے مگر کہہ وہ بھی غلط نہیں رہے کی گردان کرتے نظر آئیں گے۔ باقی شعبہ ہائے زندگی کو تو ایک طرف رکھیںصحافت خاص طور پر کالم نگار دوست اکثر اسی پالیسی کا ہی شکار نظر آرہے ہیں ۔
صحافت کے اصولوں کے مطابق سیاسی صورتحال کا تجزیہ کرنے میں تو یقیناً غیر جانبدار ہی ہونا چاہئے مگر یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک سیاسی جماعت کے قائد کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات وہ چاہے دہشت گردی کرے یا ملک دشمن سرگرمیاں سیاست کے بھیس میں اداروں کو نشانہ بنائے تمام اقدامات کے حوالے سے صاف اور واضح رائے دینے سے گریز کرتے ہوئے کبھی حالات کی بات کریں تو کبھی ماضی کے قصے دہرانے کی بات ہو۔ یہ درست کہ پاکستانی سیاست کی تاریخ بھی اتنی قابل فخر نہیں مگر ایسی بھیانک اور شرمناک بھی نہ تھی۔ عدلیہ اور فوج کے کردار کے حوالے سے سخت زبان استعمال کرنےکا چلن آج کا نہیں جسٹس منیر کے نظریہ ضرورت اور ایوب خان کے پہلے مارشل لا سے ہی یہ بحث چل رہی ہے۔ سخت زبان کا استعمال بھی ہوتا رہا دونوں اداروں کے اراکین میں سے کچھ افراد کے ذاتی کردار کے حوالے سے بحث بھی سیاسی تاریخ کا حصہ رہی ہے مگر اداروں کی بہ حیثیت ادارہ جو تذلیل آج ایک جانب سے کی گئی اس پر غیر جانبداری کا خود ساختہ لبادہ اوڑھ لینانہ صحافیانہ اصولوں کی پاسداری ہے نہ اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز ہونے کا ثبوت۔ جہاں تک میرا ذاتی مسئلہ ہے تو میں نے تو ہمیشہ یہ تحریر کیاہے کہ نہ میں غیر جانبدار ہوں نہ ہی کبھی یہ دعوی کیا کہ میں ذاتی پسند اور نا پسند کے معاملات میں کسی قسم کی رائے دینے سے کبھی گریز کرتا ہوں۔ یہ بھی اپنی جگہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ پسند نا پسند کے معاملات میں قطعی طور پر غیر جانبدار نہیں مگر سیاسی یا ملکی معاملات کے بارے میں اپنی تحریروں میں تجزیہ نگاری کے حوالے سے رائے دیتے ہوئے میری نظر حقائق پر ہوتی ہے۔ حال اور مستقبل کے بارے رائے دیتے ہوئے میرے لیے اہم بات یہ نہیں رہتی کہ میں کسے پسند کرتا ہوں اور کس کو نا پسند تجزیہ کرتے ہوئے میں اپنی توجہ صرف اس بات کو دیتا ہوں کہ معروضی حالات میں کیا ہورہا ہے آئندہ دنوں میں کیا ہوسکتا ہے اس کے لیے پاکستان کی سیاسی تاریخ کو ضرور سامنے رکھتا ہوں۔ مستقبل میں ہونےوالے واقعات بارے ماضی میں جھانکے بغیر اندازہ نہیں لگایاجاسکتا۔ سیاست کے حوالے سے تجزیہ کرتے ہوئے دوسری اہم بات میرے پیش نظر سیاسی کرداروں کے ماضی کے حالات ہوتے ہیں بنیادی طور پر میں تاریخ خاص طور پر پاکستان کی سیاسی تاریخ کا طالب علم ہوں۔ مجھے اس بات پر بھی فخر ہے کہ میں شعوری طور پر پاکستانی سیاست کے سب سے اہم انتخابات کا عینی شاہد ہونے کے ساتھ ساتھ13 سال کی کم عمری کے باوجود اس میں عملی طور پر شریک بھی تھا۔1970 کے انتخابات میں میں کلاس ہفتم کا طالب علم تھا جیکب آباد سندھ میں ہماری رہائش تھی ۔ انتخابات میں جیکب آباد سے قومی اسمبلی کی نشست پر مسلم لیگ کے امیدوار میر مراد خان جمالی(سابق وزیراعظم ظفر اللہ جمالی کے ماموں) جبکہ پیپلز پارٹی کے امیدوار میر دریا خان کھوسو تھے۔ میری والدہ میر مراد خان جمالی کی خواتین کی طرف سے حلقے میں پولنگ ایجنٹ مقرر کی گئی تھیں۔ انتخابات سے قبل انتخابی مہم کے ساتھ ساتھ انتخاب والے دن پورے حلقے میں جس میں شہری علاقے کے ساتھ ساتھ دیہی علاقہ بھی شامل تھا مصروف رہا ہر طرح کی سرگرمی کا مشاہدہ کیا۔ میر مراد خان جمالی بہت تھوڑے فرق سے انتخاب ہار گئے۔ نتیجے کے بعد میرے خاندان نے جن مسائل کا سامنا کیا وہ آج کا موضوع نہیں بیان کرنا یہ مقصود تھا کہ میں سیاست اور انتخابی سیاست کا قریباً چھ دہائیوں سے ائد عرصے کا عینی شاہد ہوں اپنی تحریروں میں بیان کردہ اکثر واقعات بارے میری اطلاعات ذاتی معلومات کے حوالے سے ہی ہوتی ہیں۔ انہی اصولوں کی بنیاد پر کیے جانے والے سیاسی تجزیوں میں پاکستانی سیاست کے کرداروں کی ذاتی تاریخ کے ساتھ ساتھ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی تاریخ بھی میرے سامنے رہتی ہے۔
موجودہ سیاسی حالات بارے تجزیہ کرتے ہوئے میری بنیاد پسند نا پسند نہیں پاکستان میں سیاست کے ماضی اور سیاسی کرداروں کے ماضی پر ہی رہی مجھے فخر ہے کہ ان اصولوں کی بنیاد پر کیے گئے رواں ہفتہ میں تحریر کیے گئے دو سابقہ کالموں میں بیان کردہ صورتحال حرف بہ حرف پوری ہوتی نظر آ رہی ہے پہلے کالم میں میں نے تحریر کیا تھا کہ اب لڑائی سیاسی نہیں رہی یہ ذاتی بن گئی ہے۔ عمران خان اپنی حماقت سے اپنا بہت کچھ ضائع کر بیٹھے ہیں آنے والے دنوں میں مزید نقصان کے لیے تیار رہیں۔ پچھلے کالم میں میں نے تحریر کر دیا تھا کہ وقت آگیاہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کے عین مطابق تحریک انصاف سے لا تعلقی کے اعلانات کا موسم شروع ہونے والا ہے اور جنوبی پنجاب اس کا سب سے بڑا مرکز ہوگا۔ کالم کی سیاہی بھی خشک نہ ہوئی تھی کہ لاتعلقی کے اعلانات کراچی سے خیبر تک شروع ہو گئے۔ میرایہ تجزیہ نہ علم نجوم کے تحت کیاگیا تھا نہ ہی ستاروں کے کسی اور علم کے حوالے سے۔ علم نجوم کے حوالے سے بڑے بڑے دعوے کرنےوالوں نے ہی آج عمران خان کو اس بند گلی میں کھڑا کر دیا ہے۔ ایسے نجوم کے ماہرین ٓآج کل سوشل میڈیا سے بھی غائب ہیں جبکہ زمان پارک کے طواف بھی اب ختم ہو گئے ہیں۔ تجزیہ کرتے ہوئے یہ بات اہم نہیں کہ آپ جانبدار ہیں یا غیر جانبداراہم اور ضروری پہلو یہ ہے کہ آپ ایمانداری سے واقعات کو ماضی حال کے تناظر میں مستقبل میں کیسے دیکھ رہے ہیں۔ درست تجزیے کے لیے جانبدار یاغیر جانبدار نہیں ایماندار ہونا ضروری ہے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں