تحریر:ڈاکٹر ظفر چوہدری
1967ء میں عرب اسرائیل جنگ ہوتی تو چھوٹے سے اسرائیل نے امریکہ کی مدد سے عربوں کو شکست فاش سے دو چار کر دیا اور مسلمان اپنے قبلہ اول یعنی مسجد اقصیٰ میںسے محروم ہو گئے۔ شام گولان کی پہاڑیاں گنوا بیٹھا اور مصر مہر کے سینا سے محروم ہو گیا۔ مصر کے صدر جمال عبدالناصر اس وقت مسلمانوں کے بڑے انقلابی لیڈر سمجھے جاتے تھے۔ جنگ کے اختتام پر انہوں نے صدارت سے استعفی دے دیا۔ اس وقت کی خبروں کے مطابق مصری عوام سڑکوں پر نکل آئی اور انہوں نے اپنے ’’محبوب‘‘ راہنما کو استعفیٰ واپس لینے پر مجبور کر دیا اور شام کے صدر حافظ اسد صاحب بد ستور صدارت پر فائز رہے اردن میں تو ویسے ہی بادشاہت تھی وہاں شاہ حسین کو کیا ہونا تھا وہ تو تھے ہی بادشاہ۔ اس جنگ میں سب سے زیادہ نقصان فلسطینیوں کو پہنچا کیونکہ مسجد اقصیٰ اور فلسطین کے علاقوں پر اسرائیل کے قبضہ ہونے کی وجہ سے وہ دربدر ہو گئے اورآج 55 سال بعد بھی اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ بعد میں ریاض شاہد کی فلم زرقا دیکھی جس میں یہودیوں کے فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم کی تصویر کشی کی گئی تھی۔ یاسر عرفات کی قیادت میں الفتح تنظیم معرض وجود میں آئی جس نے کچھ گوریلا کارروائیاں بھی کیں مگر پھر انہیں اردن سے بھی نکال دیا گیا اور وہ لبنان میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔ اُردن میں فلسطینیوں کے قتل عام میں ہمارے بریگیڈیئر ضیاء الحق جو بعد میں صدر پاکستان اور چیف آف آرمی سٹاف بنےاور ایئر کمووڈر خاقان عباسی کا بڑا اہم رول بتایا جاتا ہے۔ جس کی وجہ دونوں کو امریکہ بہادر کی اشیر باد تھی۔
جب 1967ء عرب اسرائیل کی جنگ کے بعد میں نے اپنے استاد جنہوں نے 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں سبز پگڑیوں والے گھڑ سواروں کے قصے سنائے تھے پوچھا کہ ہمارا قبلہ اول یہودیوں کے قبضہ میں چلا گیا ہے۔ یہاں وہ پر اسرار مجاہدین کیوں نہیں پہنچے تو انہوں نے مجھے ڈانٹ کر کہ ابھی تم بچے ہو یہ سوال تمہارے سوچنے کے نہیں ہیں وہ تو مقام شکر ہے اس زمانے میں جعلی پارسائی اور مذہبی انتہا پسندی اس مقام تک نہیں پہنچی تھی۔
کوئی بھی معاشرہ جن میں سوال کرنے کی اجازت نہ ہو وہ ترقی نہیں کر سکتا۔ بہت سے سوالوں کا بعد جواب تو ومل گیا مگر وہ جلد امریکہ کی خفیہ دستاویزات سے جو کہ 30 سال بعد عام کر دی جاتی ہیں معلوم ہوا کہ صدر جمال عبدالناصر تو سی آئی اے کا ایجنٹ تھا۔ جس کی پر جوش تقاریر بھی سی آئی اے لکھ کر دیا کرتی تھی اور مشرق وسطی میں1944ء میں اپنے ورلڈ آرڈر کے نتیجہ میں عرب ممالک میں بادشاہتیںبھی امریکہ بہادر کے در پردہ تعاون سے قائم کی گئی تھیں پھر اسرائیل کی ولادت بھی برطانیہ اور امریکہ کی باہمی کاوشوں میں سے مشرق وسطہ کے وسط میں ہوئی۔ مسلمانوں کی لا علمی اور قرآنی تعلیمات سے دوری کا سبب یہی ’’کرامات ‘‘ اور’’ معجزات‘‘ پر مبنی قصے کہانیاں میں ثابت ہوئیں جنہوں نے مسلمانوں کو علمی تحقیق سے دور کر دیا۔ اندھی تقلید ان پر مسلط کر دی اور اس منظم ذہن سازی کی جس نے اس خطے کے مسلمانوں کو خاص طور پر انتہاء پسندی کے اندھے کنویں میں دھکیل دیا ۔