یہ ایمرسن یونیورسٹی ملتان کا مرکزی گیٹ ہے جس کی تزئین و آرائش لاکھوں روپے مالیت سے پرانے گیٹ اور پرانا سٹر کچر ہٹا کر ڈیڑھ سال قبل کی گئی تھی۔ پرانا گیٹ اور میٹریل کہاں فروخت ہوا یہ الگ کہانی ہے مگر فی الحال تو یہ بتانا مقصود ہے کہ وائس چانسلر ایمرسن یونیورسٹی ڈاکٹر محمد رمضان جو کہ صنعت کاروں، تاجروں اور معززین شہر سے مختلف حیلوں بہانوں کےذریعے یونیورسٹی کی مالی مجبوریوں کو احسن انداز میں پیش کرکے کروڑوں روپے کے فنڈز مانگنے کے منفرد کاریگر ہیں، موصوف کی تعلیم کی طرف تو کوئی توجہ نہیں اور گزشتہ ماہ ہی انہوں نے شہر کے مختلف صنعت کاروں اور تاجروں سے امدادی ملاقاتیں کیں اور اپنے مانگنے کے فن کو بھرپور انداز میں استعمال کرکے ایک مرتبہ پھر چندہ کا دھندا چمکا لیا جس سے یونیورسٹی کے گیٹ کو دوبارہ سے توڑ کر بنایا جا رہا ہے۔ اب گٹکے کی جگہ ماربل لگے گا اور باخبر ذرائع کے مطابق انہوں نے اس مقصدکیلئے 40 لاکھ روپیہ اکٹھا کر لیا ہے۔ تعمیراتی ماہرین کے مطابق گیٹ کے پلرز، بیم اور سکیورٹی گارڈ کی درمیان میں موجود چیک پوسٹ پر زیادہ سے زیادہ چھ لاکھ روپے کا ماربل مزدوری سمیت لگے گا جو کہ کسی بھی طور پر گٹکے سے زیادہ مضبوط اور پائیدار نہیں مگر واقفان حال کے مطابق انہوں نے اپنی فنکاری سے اس کیلئے شہر کے تین صنعت کاروں اور تاجروں سے مبینہ طور پر 40 لاکھ روپے اینٹھ لئے ہیں۔ ڈاکٹر رمضان کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ سر سے پاؤں تک کرپشن میں لتھڑے ہوئے ہیں اور 68 سال کی عمر میں بھی ان کی بھوک اور کرپشن ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔
