آج کی تاریخ

سخی سرور کی تاریخ کا سب سے بڑا لینڈ سکینڈل، اوقاف کی 2 لاکھ 56 ہزار کنال اراضی فروخت-سخی سرور کی تاریخ کا سب سے بڑا لینڈ سکینڈل، اوقاف کی 2 لاکھ 56 ہزار کنال اراضی فروخت-بہاولپور: کارپوریشن ملی بھگت، فلڈ ایریا سمیت مختلف علاقوں میں غیر قانونی ٹاؤنز کی سنچری-بہاولپور: کارپوریشن ملی بھگت، فلڈ ایریا سمیت مختلف علاقوں میں غیر قانونی ٹاؤنز کی سنچری-گندم بحران شدت اختیار کر گیا، کاشتکار برباد، ذخیرہ اندوز آزاد، چھوٹے سٹاکسٹس کی پسائی-گندم بحران شدت اختیار کر گیا، کاشتکار برباد، ذخیرہ اندوز آزاد، چھوٹے سٹاکسٹس کی پسائی-کبیر والا: 25 کروڑ کی گندم سیلاب میں بہنے کا ڈرامہ، 4 شہروں میں تاجروں کو فروخت-کبیر والا: 25 کروڑ کی گندم سیلاب میں بہنے کا ڈرامہ، 4 شہروں میں تاجروں کو فروخت-انسپکٹر طرخ گینگ کی معافیاں و دھمکیاں ساتھ ساتھ، ٹاؤٹ محمد اللہ خان کا تاجر کو سپاری کا پیغام-انسپکٹر طرخ گینگ کی معافیاں و دھمکیاں ساتھ ساتھ، ٹاؤٹ محمد اللہ خان کا تاجر کو سپاری کا پیغام

تازہ ترین

یکم اگست پھر لہو لہو، 3 سال میں 27 اہلکار نشانہ اربوں کے فنڈز، آر پی او کارگردگی پر سوال

ملتان( تجزیاتی رپورٹ) کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کے گینگ نے یکم اگست 2025 یعنی گزشتہ روز پانچ پولیس جوان اہلکاروں کو موت کے گھاٹ اتار کر گزشتہ سال یکم اگست 2024 کو ایک سال قبل عین اسی دن تین پولیس اہلکاروں کے خون سے کھیلی گئی ہولی کی یاد تازہ کر دی اور نہ جانے کیوں انہوں نے ٹھیک ایک سال بعد ہی گزشتہ سال موت کے منہ میں جانے والے تین بے گناہ اہلکاروں کی تعداد میں دو کا اضافہ کرکے پانچ کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ انتہائی افسوسناک امر یہ ہے کہ آر پی او بہاولپور رانا بابر سعید کی تین سالہ تعیناتی کے دوران مجموعی طور پر 27 پولیس اہلکار کچے کے علاقے میں جاں بحق کئے جا چکے ہیں جبکہ دوسری طرف انہی ڈاکوئوں کے خاتمے کے لیے اربوں روپے کا فنڈ ہر مسلسل سال جاری ہوتا آ رہا ہے اور ہر سال گندم کی کٹائی ہی کے سیزن ہی میں کچہ آپریشن ہوتا ہے جس میں ڈاکوئوں کی املاک کے علاوہ اربوں روپے کی گندم بھی ہتھیا لی جاتی ہے اور اس میں ایسے افراد بھی اپنی سالانہ فصل سے محروم کر دیئے جاتے ہیں جن کا ڈاکوؤں کے گینگ سے دور کا بھی تعلق نہیں اور جن کا واحد جرم یہ ہے کہ وہ کچے کے علاقے میں پیدا ہونے والے پرامن شہری ہیں۔ کچہ کے علاقے میں سڑک کے کنارے پولیس کی ایک پکٹ کی تصویر شائع ہوئی ہے جو کہ ان اربوں روپے کے اخراجات کے پر براہ راست سوالیہ نشان ہے اور یہی سوالیہ نشان براہ راست ریجنل پولیس آفیسر بہاولپور رانا بابر سعید پر بھی ہے کہ اتنے بھاری فنڈ سے تین سال کے دوران وہ ایسی پکٹس بھی نہ بنوا سکے جن میں جوانی میں جام شہادت نوش کرنے والے پولیس کے نوجوان محفوظ رہ سکتے۔ 2006 سے حکومت پنجاب مسلسل ہر سال کچے کے ڈاکوؤں کی سرکوبی کے لیے اربوں کے فنڈز جاری کرتی ہے وہ فنڈز کہاں جاتے ہیں آج تک کسی کے پاس اس کا جواب نہیں نہ اس کا کوئی آڈٹ کیا جاتا ہے اور نہ ہی کسی سرکاری یا سیاسی فورم پر بھرپور انداز میں آج تک اس پر سوال اٹھایا گیا ہے۔ پولیس کی صفوں میں گھسے جرائم پیشہ ذہنیت رکھنے والے دو تھانے داروں کو تو پہلے ہی برخاست کیا جا چکا ہے جن میں سے ایک کاتو باقاعدہ کریمنل ریکارڈ ہے تاہم دونوں کے ڈاکوئوں کے ساتھ رابطے ثابت ہو چکے ہیں مگر انہیں ان رابطوں کے الزام میں نوکری سے نہیں نکالا گیا اور معمولی الزامات لگاکر اعلیٰ افسران نے ان کو سہولت کاری مہیا کی ہے تاکہ سروسز ٹریبونل یا دیگر ہائر فورم سے وہ باآسانی بحال ہو کر ڈاکوؤں سے رابطوں کا سلسلہ وہیں سے شروع کر سکیں جہاں سے ٹوٹا تھا۔ چند سال قبل راجن پور کے علاقے میں بھی اسی طرح کچے کے ڈاکو ئوںکے خلاف گرینڈ آپریشن جاری تھا تو یہ خبر پھیلی کہ اگلے 24 گھنٹوں میں آپریشن ختم ہو جائے گا پھر ریزرو پولیس کے فیصل آباد سے آئے ہوئے ایک نوجوان اہلکار کے سر میں حیران کن طور پر اس طرف سے گولی لگتی ہے جہاں ڈاکو نہیں بلکہ پولیس اہلکار موجود تھے۔ پھر یہ پیغام چلتا ہے کہ حالات سازگار نہیں لہٰذا اپریشن ختم کرنے کی اجازت دی جائے اور ایک اہلکار کی زندگی کی بلی دیے جانے کے بعد یہ آپریشن ختم کر دیا جاتا ہے۔ آج تو جیو فینسنگ کا دور ہے اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے علاوہ وفاقی وزیر داخلہ جیو فینسنگ سے معلومات لے سکتے ہیں کہ اربوں روپے کے فنڈز کچے کے علاقے میں پولیس ویلفیئر کے لیے کہاں کہاں خرچ ہوئے ہیں اور اس فنڈزسے کچے میں تعینات پولیس اہلکاروں کو کیا کیا سہولتیں فراہم کی گئی ہیں تو پانامہ لیکس کے متوازی کچہ لیکس سامنے آ جائیں گی۔ جیو فینسنگ رپورٹ تو رحیم یار خان، بہاولپور اور راجن پور کے عوامی نمائندے بھی باآسانی حاصل کر سکتے ہیں کیونکہ ایسے نجی ادارے موجود ہیں جو معاوضہ لے کر یہ سہولت فراہم کر رہے ہیں۔

شیئر کریں

:مزید خبریں