آج کی تاریخ

عمران خان جراسک پارک کا ڈائنو سار

طارق قریشی

سیاست میں جیل اور مقدمے لازم و ملزوم ہوتے ہیں۔ برصغیر کی سیاسی تاریخ میں سیاستدانوں میں کوئی اس سے مبرا نہیں رہا۔ کانگریس ہو یا مسلم لیگ‘ تحریک خلافت ہو یا تحریک خاکسار‘ ہر جماعت کے قائدین نے مقدموں کا بھی سامنا کیا اور قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ برصغیر کی سیاسی تاریخ میں صرف قائد اعظم اس معاملے میں الگ نظر آتے ہیں۔ قائد اعظم نے مقدموں یا قید کا اس لئے سامنا نہیں کیا کہ ان کی تمام سیاست کا محور قانون تھا۔ قائد اعظم نے اپنی تمام جنگ ایوانوں میں مذاکرات کے ذریعے جیتی۔ جلسے جلوس بھی کئے مگر سب قانون کے دائرے میں رہ کر نہ زبان سے غیر قانونی الفاظ ادا کئے نہ کوئی ایسا قدم اٹھایا کہ قانون کی خلاف ورزی کا الزام آ سکے۔ قیام پاکستان کے بعد ابتدائی ایام سے ہی حزب مخالف کی سیاسی جماعتوں نے ہر قسم کی مشکلات کا سامنا کیا۔ غفار خان‘ جی ایم سید کے علاوہ بلوچستان کے سرکردہ سیاست دانوں نے مقدمات کا بھی سامنا کیا‘ جیلوں میں بھی گئے‘ غداری کے الزامات کا بھی سامنا کیا‘ سیاسی جماعتوں پر پابندی بھی لگی۔ پاکستان میں تو تحریک پاکستان کے قائدین میں سے حسین شہید سہروردی جیسے بڑے لیڈر پر غداری کے الزامات بھی لگے‘ جیل بھی ڈالا گیا۔ سب سے بڑھ کر قائد اعظم کی بہن محترمہ فاطمہ جناح پر غداری کے الزامات بھی لگے‘ مقدمے بھی بنائے گئے‘ انتخابات میں جعلسازی کی گئی مگر کسی سیاسی قائد نے اپنے آپ کو ریڈ لائن قرار نہیں دیا نہ ہی ’’میں نہیں تو کچھ بھی نہیں‘‘ کی پالیسی اپنائی۔
اسٹیبلشمنٹ پاکستانی سیاست میں 1951ء سے مداخلت کر رہی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ گذشتہ 73 سال سے پاکستان پر اسٹیبلشمنٹ کا ہی راج ہے کبھی بالواسطہ تو کبھی بلا واسطہ تو غلط نہ ہو گا۔ ملکی تاریخ میں عوامی اور مقبول رہنمائوں میں ذوالفقار علی بھٹو ہوں یا نواز شریف‘ محترمہ بے نظیر بھٹو ہوں یا عمران خان۔ اقتدار پر پہنچنے کیلئے ہر ایک نے کسی نہ کسی موقع پر اسٹیبلشمنٹ سے اتحاد کیا۔ نواز شریف اور عمران خان کو تو باقاعدہ اسٹیبلشمنٹ نے سیاست میں متعارف بھی کرایا بلکہ اقتدار تک بھی پہنچایا۔ نواز شریف کو بھٹو مخالف قوت کے طور پر تو عمران خان کو نواز شریف مخالف قوت کے طور پر دونوں کا تعلق پنجاب کے شہری علاقے بلکہ لاہور سے ہے اس لئے دونوں جماعتوں کی اصل طاقت بھی شہری علاقوں میں ہی ہے۔ پنجاب سے تعلق رکھنے کی وجہ سے دونوں کو کچھ خاص رعایتیں بھی حاصل رہیں جو کسی چھوٹے صوبے سے تعلق رکھنے والے سیاسی قائد کو نہ مل سکیں چاہے وہ اسٹیبلشمنٹ کے منظور نظر ہی رہے ہوں۔ عمران خان کو سیاست میں لانے کا اصل مقصد ایک ہی تھا کہ ملک میں موجود سیاسی منظر نامے میں ایک ایسی سیاسی جماعت کا اضافہ کیوں نہ کیا جائے جس میں ملک بھر سے سٹیبلشمنٹ کے پسندیدہ اور آزمودہ کار سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ خود ساختہ اشرافیہ کے ان طبقات کو بھی شریک کیا جائے جو آج تک پاکستانی سیاست سے دور رہتے تھے۔ اس حوالے سے خود اسٹیبلشمنٹ کا حصہ ہونے والے خاندانوں کے افراد کو تحریک انصاف کا ہر اول دستہ بنایا گیا۔ عسکری افسران‘ انتظامی افسران کے ساتھ ساتھ عدلیہ کے اراکین کے قریبی عزیز و اقارب ایک باقاعدہ منصوبے کے تحت تحریک انصاف میں شامل کرائے گئے۔ 2014ء میں اس پراجیکٹ کا آغاز کیا گیا۔
1996ء میں اگرچہ تحریک انصاف کا قیام ہی جنرل حمید گل نے بے نظیر بھٹو اور نواز شریف مخالفت میں ہی کروایا تھا مگر عمران خان کو یہ باور کرانے کے لئے کہ ان کی سیاست میں نہ ان کی مقبولیت کا دخل ہے نہ ہی ذاتی کرشمے کا‘ 1997ء کے انتخابات میں عمران خان پورے ملک سے ہار گئے جبکہ 2002ء میں جنرل مشرف کی خاص مہربانی سے میانوالی کی ایک نشست عمران کے حصے میں آئی۔ 2007ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے نواز شریف کی واحد سیاسی قوت سے خوفزدہ ہو کر 2011ء میں پراجیکٹ عمران کو آخری شکل دے کر تمام تیاریوں کے ساتھ میدان میں اتار دیا۔ جنرل حمید گل سے آغاز ہونے والے اس پراجیکٹ کو سجانے سنوارنے میں جنرل راحیل شریف‘ جنرل پاشا سے لے کر جنرل ظہیر الاسلام سب نے اپنا اپنا حصہ ڈالا۔ اس ساری محنت اور کھلی ننگی کوششوں کے باوجود عمران خان کو مسند اقتدار پر پہنچانے کیلئے سٹیبلشمنٹ کو اپنے پرانے اتحادیوں یعنی اعلیٰ عدلیہ کے اراکین کو بھی میدان میں اتارنا پڑا۔ 2014ء سے 2018ء تک جو ہوا وہ ساری دنیا نے دیکھا۔ نہ قانون آڑے آیا نہ آئین کسی جگہ رکاوٹ بنا۔ نواز شریف میدان سے باہر بھی کر دیا گیا عمران خان کو اقتدار میں حوالے کر دیا گیا ساتھ ہی قوم کو یہ احکامات بھی جاری کر دیئے گئے کہ نئی حکومت پر نہ تنقید کرنی ہے نہ ہی اس کے معاملات میں کوئی رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کرنے کی اجازت ہو گی۔ عسکری قیادت ہو یا عدالتی قیادت نیب کا شکنجہ ہو یا تحقیقاتی اداروں کی منہ زوری‘ سب عمران خان کے ساتھ ایک صفحے پر۔ ایسا ایک صفحہ کے باقی کسی کو آواز اٹھانے کی اجازت نہ ہی انصاف کا در کھٹکھٹانے کی سہولت‘ سب سہولت کار ایک ہی کام میں سرگرم‘ کے کہیں اس لاڈلے کو گرم ہوا کا سامنا نہ کرنا پڑے مگر پھر وہی ہو گیا جو تاریخ میں ہوتا آیا ہے۔ ایک ہی صفحے پر رہنے والوں کے درمیان اپنے اپنے ذاتی مفادات پر لڑائی شرع ہو گئی ایک صفحہ تار تار ہو گیا۔ ایک دوسرے کی پیٹیاں تبدیل کرنے والوں نے ایک دوسرے کے کپڑے اتارنا شروع کر دیئے۔ حمام میں سب ننگے ہوئے تو نہ اخلاق باقی رہا نہ کردار‘ اپنی اپنی بقا کی جنگ نے نہ ملکی وقار باقی رہنے دیا نہ اداروں کا بھرم۔ عمران خان جسے یہ کہہ کر لایا گیا تھا کہ اب آپ کا کوئی نعم البدل نہ رہنے دیا ہے نہ آنے دیا جائے گا اپن یاس شرمناک واپسی پر اوسان خطا کر بیٹھے۔ اب لڑائی صرف سیاسی یا اقتدار کی نہیں رہی ذاتی جنگ اور انتقام میں تبدیل ہو گئی۔ ملک‘ ادارے اور سماجی ڈھانچہ سب عمران خان کے نشانے پر کہ جنگ اور وہ بھی ذاتی جنگ میں تو سب جائز ہوتا ہے۔ عمران خان کو جب ورلڈ کپ اور شوکت خانم کے ذریعے پاکستان میں لانچ کیا جا رہا تھا تو ملک میں موجود دو بڑے آدمیوں نے اس حوالے سے خبردار کیا تھا۔ جناب حکیم سعید اور جناب ڈاکٹر اسرار احمد دونوں حضرات آج اس دنیا میں نہیں مگر ان کے فرمودات کی بازگشت آج خطرناک طریقے سے نظر آ رہی ہے۔ حکیم سعید اور ڈاکٹر اسرار احمد ہر دو حضرات دو مختلف میدانوں کے شہوار تھے مگر دونوں کے عمران خان کے حوالے سے خدشات یکساں تھے۔ دونوں کے بقول پاکستان کی سماجی اور سیاسی تہذیب کو مکمل تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں پر کاری ضرب لگانے کیلئے عمران خان عالمی استعمار کا ایک مہرہ بن کر سامنے آ رہا ہے۔ ابتدا میں مجھ سے طالب علم اس سب کو ایک بے جا خوف کا سبب گردانتے تھے مگر عمران خان کی سیاست خاص طور پر اقتدار میں آنے اور پھر اقتدار سے علیحدہ ہونے پر سامنے آنے والے کردار و عمل نے ڈاکٹر اسرار احمد اور جناب حکیم سعید کے خدشات کو درست بلکہ زیادہ درست ثابت کر دیا ہے۔ پاکستانی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کیلئے سہولت کاری اور سہولت کاروں کا جو انتظام کیا تھا آج وہ ان کیلئے ہی خطرناک صورتحال اختیار کر گیا ہے۔ اب بات سیاست اور سیاست دانوں سے نکل گئی ہے۔ جراسک پارک کی طرح لیبارٹری میں تیار کردہ ڈینو سار اب اپنے خالق کا ہی سب سے بڑا دشمن ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اس کی تیاری میں استعمال کئے جانے والے سب اجزا خالق کے پاس ہی محفوظ ہیں۔ اپنی بقا کی خاطر پاکستانی جراسک پارک کا یہ ڈینو سار ا اپنے مقابل صرف ایک شخص کو ہی قرار دے رہا ہے اور وہ ہے اسٹیبلشمنٹ کا سربراہ‘ سہولت کار اس کے ساتھ ہیں۔ اب ملک میں نہ ریڈ لائن دفاعی ادارے ہیں نہ مذہبی مقام‘ نہ کسی کا گھر محفوظ ہے نہ ہی کوئی یادگار‘ وہ شہدا کی ہو یا پھر قائد اعظم کی۔ اب مقابلہ ریڈ لائن بنانے والوں اور ریڈ لائن قرار دینے والوں کے درمیان ہے۔ کیا ہو سکتا ہے کیسے ہو سکتا ہے راستے کیسے بند ہو گئے ہیں‘ مضبوط کون ہوا ہے اور کمزور کون‘ ریڈ لائن اصل میں کون ہے اصلی اور نقلی ریڈ لائن کا فیصلہ اب زیادہ دور نہیں۔

شیئر کریں

:مزید خبریں