آج کی تاریخ

سخی سرور کی تاریخ کا سب سے بڑا لینڈ سکینڈل، اوقاف کی 2 لاکھ 56 ہزار کنال اراضی فروخت-سخی سرور کی تاریخ کا سب سے بڑا لینڈ سکینڈل، اوقاف کی 2 لاکھ 56 ہزار کنال اراضی فروخت-بہاولپور: کارپوریشن ملی بھگت، فلڈ ایریا سمیت مختلف علاقوں میں غیر قانونی ٹاؤنز کی سنچری-بہاولپور: کارپوریشن ملی بھگت، فلڈ ایریا سمیت مختلف علاقوں میں غیر قانونی ٹاؤنز کی سنچری-گندم بحران شدت اختیار کر گیا، کاشتکار برباد، ذخیرہ اندوز آزاد، چھوٹے سٹاکسٹس کی پسائی-گندم بحران شدت اختیار کر گیا، کاشتکار برباد، ذخیرہ اندوز آزاد، چھوٹے سٹاکسٹس کی پسائی-کبیر والا: 25 کروڑ کی گندم سیلاب میں بہنے کا ڈرامہ، 4 شہروں میں تاجروں کو فروخت-کبیر والا: 25 کروڑ کی گندم سیلاب میں بہنے کا ڈرامہ، 4 شہروں میں تاجروں کو فروخت-انسپکٹر طرخ گینگ کی معافیاں و دھمکیاں ساتھ ساتھ، ٹاؤٹ محمد اللہ خان کا تاجر کو سپاری کا پیغام-انسپکٹر طرخ گینگ کی معافیاں و دھمکیاں ساتھ ساتھ، ٹاؤٹ محمد اللہ خان کا تاجر کو سپاری کا پیغام

تازہ ترین

ڈیرہ سمیت ملکی جامعات میں کم داخلے، ہزاروں نشستیں خالی، تعلیمی نظام سوالیہ نشان

ڈیرہ غازی خان(خبر نگار)پاکستان کی اعلیٰ تعلیم ایک ایسی نہج پر آن پہنچی ہے جہاں جامعات کے کلاس رومز سنسان اور ہزاروں نشستیں خالی رہ گئی ہیں۔ خاص طور پر جنوبی پنجاب کی نمایاں سرکاری جامعہ غازی یونیورسٹی ڈیرہ غازی خان کی صورت حال تشویشناک ہے جہاں متعدد شعبہ جات میں داخلے نہ ہونے کے باعث کلاسز ہی شروع نہیں ہو سکیں۔ یہی کیفیت پنجاب کی بیشتر جامعات میں بھی دیکھی جا رہی ہے جہاں داخلہ شرح خطرناک حد تک کم ہو چکی ہے اور خالی کرسیوں نے پورے تعلیمی نظام کو سوالیہ نشان بنا دیا ہے۔ملک گیر سطح پر اگر اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو 2022-23 کے تعلیمی سال میں پاکستان بھر کی جامعات میں داخلہ لینے والے طلباء کی تعداد 2.24 ملین تھی جو اگلے سال 1.94 ملین پر آ گئی ،یعنی صرف ایک سال میں 13 فیصد کمی۔ یہ کمی محض رجحان نہیں بلکہ ایک گھمبیر بحران کی علامت ہے جو نہ صرف تعلیمی اداروں کی ساکھ کو متاثر کر رہا ہے بلکہ قومی مستقبل کو بھی خطرے میں ڈال رہا ہے۔پاکستان کی Tertiary Gross Enrolment Ratio (GER) اس وقت صرف 11.22 فیصد ہے، جو نہ صرف عالمی معیار (40٪ سے زائد) سے بہت کم ہے بلکہ جنوبی ایشیا کے اوسط 25 فیصد سے بھی کہیں نیچے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیم سے وابستگی روز بروز کم ہوتی جا رہی ہے، بالخصوص غریب اور متوسط طبقے کے لیے اعلیٰ تعلیم ایک خواب بنتی جا رہی ہے۔اس بحران میں اہم کردار چار سالہ بی ایس پروگرام نے بھی ادا کیا ہے، جس نے دو سالہ بی اے/بی ایس سی پروگرام کی جگہ لی۔ اس تبدیلی کو بغیر کسی مرحلہ وار تیاری کے نافذ کیا گیا، جس سے والدین اور طلباء کو شدید مالی دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ دورانیہ بڑھنے کے ساتھ ساتھ فیسیں بھی دو سے تین گنا ہو گئیں اور اس کے ساتھ جڑے اخراجات جیسے ہاسٹل، ٹرانسپورٹ، پراجیکٹس اور انٹرنیٹ کی لاگت نے معاملہ مزید گھمبیر بنا دیا۔دیہی اور پسماندہ علاقوں، خاص طور پر جنوبی پنجاب اور بلوچستان جیسے خطوں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں طلبہ ان رکاوٹوں کے باعث یونیورسٹی کے دروازے تک نہیں پہنچ پا رہے۔ لڑکیوں کے لیے یہ مشکلات کئی گنا زیادہ ہیں سفر کا مسئلہ، ثقافتی قدغن، ہاسٹل کی عدم دستیابی، اور مہنگی تعلیم ان کے خوابوں کو چکناچور کر رہے ہیں۔مزید تشویش ناک امر یہ ہے کہ جن طلباء نے تمام تر مشکلات کے باوجود تعلیم حاصل کی، وہ بھی ڈگری ہاتھ میں لیے در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ ہزاروں بی ایس، ایم اے، اور ایم فل پاس نوجوان بیروزگار ہیں۔ جب اعلیٰ تعلیم کے بعد بھی روزگار کی ضمانت نہیں، تو طلبہ کا تعلیم سے بدظن ہونا ایک فطری ردعمل بن چکا ہے۔غازی یونیورسٹی سمیت متعدد جامعات میں طلباء کی کمی کے باعث کئی پروگرام بند ہونے کے قریب ہیں۔ فیکلٹی ارکان بھی اس بحران سے نالاں ہیں اور خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ اگر یہی صورتحال رہی تو مستقبل میں پورے شعبے ہی غیر فعال ہو سکتے ہیں۔ یہ تنزلی محض ادارہ جاتی نہیں بلکہ قومی انسانی وسائل کے زیاں کی شکل اختیار کر چکی ہے۔تعلیمی ماہرین تجویز دے رہے ہیں کہ بی ایس پروگرام کی فیسوں کو معقول سطح پر لایا جائے یا غریب طلبہ کے لیے سبسڈی دی جائے، دو سالہ ایسوسی ایٹ ڈگری کو بحال رکھا جائے، سرکاری جامعات میں اسکالرشپس کو بڑھایا جائے، اور دیہی علاقوں میں یونیورسٹی کیمپس قائم کیے جائیں تاکہ فاصلے کی رکاوٹ دور ہو سکے۔اگر ان مسائل کا فوری تدارک نہ کیا گیا تو پاکستان کا تعلیمی منظرنامہ مزید تاریک ہو جائے گا۔ وہ جامعات جو کبھی علم کا گہوارہ سمجھی جاتی تھیں، وہ اب خالی کلاس رومز اور سنسان راہداریوں کے سوا کچھ نہیں رہیں گی۔ اور ہر خالی نشست ایک ایسا خواب ہو گی جو مہنگی تعلیم، ناقص پالیسیوں، اور ریاستی بے حسی کے ہاتھوں دم توڑ گیا۔

شیئر کریں

:مزید خبریں