تحریر:طارق قریشی
پاکستان کی سیاست پر چھ دہائیوں سے زائد عرصے سے بھٹو خاندان کا قبضہ ہے آپ ان کے حامی ہیں یا مخالف سیاست کے بارے بھٹو خاندان کے بغیر کسی قسم کا تبصرہ ممکن ہی نہیں۔ ساٹھ کی دہائی کے ابتدائی سالوں میں جب ذوالفقار علی بھٹو نے صرف 32 سال کی عمر میں پاکستان کے وزیر خارجہ کا عہدہ سنبھالا تو وہ دنیا میں سب سے کم عمر وزیر خارجہ تھے پاکستان کے بطور آزاد مملکت ابھی پندرہ سال ہی مکمل ہوئے تھے مگر اس کے باوجود پاکستان اقوام عالم میں ایک اہم حیثیت کا حامل تھا۔ پاکستان ابھی ایٹمی طاقت تو نہ بنا تھا مگر اتنا مجبور و محصور بھی نہ تھا جتنا آج کل ہے۔ واشنگٹن سے لے کر آسٹریلیاتک پاکستان کی بات سنی بھی جاتی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بطور وزیر خارجہ تقرری کے بعد جہاں ایک طرف امریکہ اور یورپی ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کے حوالے سے اہم کردار ادا کیا وہاں دوسری طرف پاکستان اور چین کے درمیان تعلقات کو بلندیوں تک پہنچایا۔ ذوالفقار علی بھٹو کا بطور وزیر خارجہ پانچ سال سے کم عرصے پر محیط تھا مگر اس کے اثرات انتہائی دور رس رہے۔ نہ صرف بھٹو کو اپنے ذاتی تشخص کے اضافے میں مدد ملی بلکہ پاکستان کو بطور ریاست بھی اقوام عالم میں اہم مقام حاصل ہوگیا۔ بھٹو نوجوان ہونے کے باوجود عالمی سیاست کے بارے مکمل آگاہی رکھتے تھے ذہانت اور متحرک ہونے کی خصوصیات کے باعث جلد ہی بھٹو نے دنیا بھر میں اپنا ذاتی حلقہ احباب بھی بنا لیا جس نے آگے چل کر انہیں سیاست میں بہت فائدہ پہنچایا۔آگے چل کر بھٹو نے پاکستان میں اپنی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی قائم کی۔ سیاست میں ایک نیا انداز اپنایا عوام کی جانب سے بھر پور پذیرائی ملی تھوڑے ہی عرصے میں بھٹو پاکستان کے مقبول ترین عوامی رہنما بن گئے۔ سقوط مشرق پاکستان کے بعد انتہائی مخدوش حالات میں بھٹو نے اقدار سنبھالا۔ غیر معمولی حالات کے باعث بھٹو نے اقتدار تو حاصل کرلیامگر ملک بھر میں ان کی حیثیت انتہائی متنازعہ ہو گئی تھی ۔
بھٹو نے اپنی ذہانت اور ذاتی صلاحیتوں سے ملک بھر کی سیاسی جماعتوں سے مکالمہ کا آغاز کیا متفقہ آئین کی تیاری میں اجتماعی طور پر کام کرنے کی دعوت دی۔ پاکستان کے مخدوش حالات میں سیاسی قیادت نے باہمی متنازعات کو پس پشت ڈالتے ہوئے متفقہ آئین کی تیاری میں حصہ لیا اس طرح پاکستان کو ایک متفقہ آئین حاصل ہوسکا آج پاکستان کے باہمی اتحاد میں اس متفقہ آئین کانمایاں کردار ہے۔بھٹو خاندان کا پاکستانی سیاست میں اہم کردار جس کا آغازساٹھ کی دہائی میں ہوا تھا آج پچاس سال گزرنے کے باوجود اتنا ہی اہم ہے جتنا آغاز میں تھا۔ سیاست میں بھٹو خاندان کا عروج و زوال کی تاریخ اپنی جگہ مگرسیاست میں بھٹو خاندان نے جو سانحے برداشت کیے ان کی مثال پاکستانی تاریخ میںنہیں ملتی ہے۔ اس حوالے سے بھٹو خاندان نے اپنی قربانیوں کے باعث ایک افسانوی حیثیت حاصل کرلی جس کا ان کی سیاست کو بہت فائدہ حاصل ہوا۔ ذوالفقار علی بھٹو پاکستان میں پہلے سیاست دان تھے جس نے عوامی مزاج کے مطابق سیاست کا انداز اختیار کیا۔ عوامی زبان میں عوامی مسائل کوسیاست میں متعارف کرانے کا سہرا بھی بھٹو کے سر ہی تھا۔ عوام میں مقبولیت کے ساتھ ساتھ ذہانت اور عالمی منظر نامے پر مکمل آگاہی نے بھٹو خاندان کو عالمی سیاست میں بھی نمایاں مقام عطا کیا۔32سال کی عمر میں سیاست کا آغاز کرنےوالے بھٹو اپنی عمر کے پچاس سال مکمل کرنے سے پہلے ہی ایک سانحہ کا شکار ہو گئے۔ مارشل لا کے دور میں بھٹو کو پھانسی تو دے دی گئی مگر پاکستان میں بھٹو خاندان کا سیاسی کردار مزید اہم حیثیت حاصل کرگیا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو نے سیاست میں اپنے والد کے انداز کو ہی آگے بڑھایا عوام میں انہیں بے حد پذیرائی بھی حاصل ہوئی دومرتبہ پاکستان کے وزیراعظم کے عہدے تک بھی پہنچیں عالمی سیاست میں بھی ان کی موجودگی کو پذیرائی حاصل رہی۔ اپنے والد کی طرح محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی اپنی سیاست میں عروج زوال کا سامنا کرنا پڑا۔ ملک بدری دیکھی قید و بند برداشت کی۔اس ساری صورتحال میں عوامی حمایت بھٹو خاندان کا مستقل سرمایہ رہا۔ عوامی حمایت اور مقبولیت جہاں بھٹو خاندان کی سب سے بڑی طاقت رہی وہیں اس مقبولیت کی وجہ سے بھٹو خاندان کو بار بار حادثاتی موت کے سانحات سے بھی دوچار ہونا پڑا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد جب بلاول بھٹو زرداری کو زرداری قبیلے کے فرد ہونے کے باوجود جب بھٹو کا نام دے کر پارٹی چیئرمین کے عہدے پر فائز کیاگیا تو اسے وراثتی سیاست کے جاری سلسلے کی حیثیت سے ہی دیکھا گیا ۔ گزشتہ پندرہ سال سے اگرچہ بلاول بھٹو بطور پارٹی چیئرمین پارٹی کے معاملات بھی چلا رہے تھے ملکی سیاسی معاملات میں بھی اپنا کردار اداکر رہے تھے مگر ان کی ذاتی صلاحیتوں کا کوئی ایسا خاص مظاہرہ نظر نہیں آیا۔ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے بعد جب اتحادی حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا تو پیپلز پارٹی کو اسمبلی میں نمائندگی کے مطابق کابینہ میں حصہ دینے کافیصلہ ہوا۔ پیپلز پارٹی کے حصے میں جو وزارتیں آئیں ان میں سب سے اہم وزارت خارجہ ہی تھی۔ بلاول بھٹو نے جب وزارت خارجہ کا قلمدان سنبھالنے کا فیصلہ کیا تو سب سے پہلے پارٹی میں ہی ان کی مخالفت میں آوازیں بلند ہوتی نظر آئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بہت سے سیاسی تجزیہ نگار بھی پارٹی چیئرمین کو شہباز شریف کی ماتحتی میں وزارت سنبھالنے کی مخالفت کرتے نظر آئے۔ اس حوالے سے آصف علی زرداری اس فیصلے کے سب سے بڑے حامی تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی طرح بلاول نے ناتجربہ کاری اور نوجوانی میں وزیر خارجہ کا عہدہ سنبھالا۔ بلاول بھٹو کو وزارت خارجہ کا انتظام سنبھالتے ہی انتہائی نازک حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک طرف فیٹیف کی تلوار لٹکی تھی تو دوسری طرف ہندوستان کا جارحانہ رویہ ہندوستانی حکمرانوں کی پوری کوشش تھی کہ پاکستان کی فیٹیف کے چنگل سے جان نہ چھٹے۔ دنیا بھر میں پاکستان پر دہشتگردی کے الزامات کے حوالے سے مہم چلانے کے لیے ہندوستان نے اپنے مکمل وسائل استعمال کیے۔ فیٹیف کی گرے لسٹ سے پاکستان کا نام نکلنا بلاول بھٹو کا پہلا امتحان تھا۔ اس امتحان میں بلاول کی کامیابی نے ان کے اعتماد میں اضـافہ کیا۔ آنے والے دنوں میں اقوام متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی دورہ امریکہ کے دوران امریکی قیادت سے معاملات طے کرنے کے ساتھ ساتھ یورپی یونین میں پاکستانی برآمدات کے حوالے سے خصوصی درجہ کے حصول کے معاملات میں کامیاب سفارتکاری نے نوجوان بلاول بھٹو کے تشخص میں بہت اضافہ کیا۔ ان کامیابیوں سے جہاں پاکستان کو بحیثیت ریاست بہت فائدہ ہوا وہیں بلاول بھٹو کے وزارت خارجہ کا عہدہ سنبھالنے کے فیصلے کو درست ثابت کیا۔ بلاول بھٹو نے دنیا بھر میں میڈیا کے جارحانہ رویے کے باوجود اپنی ناتجربہ کاری کو آڑے نہیں آنے دیا۔ہر غیر ملکی دورے سے پہلے مکمل اور بھر پور تیاری نے بلاول بھٹو نے اپنے مشکل کام کو آسان بنایا بلاول بھٹو کا سب سے بڑا امتحان شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کا فیصلہ تھا۔ اس مرتبہ اجلاس کا انعقاد ہندوستان کے شہر گوا میں ہو رہا تھا۔ سب سے پہلے تو یہ مشکل فیصلہ کرنا تھا کہ بارہ سال کے طویل عرصے کے وقفے کے ساتھ ساتھ موجودہ کشیدہ حالات میں پاکستانی وزیر خارجہ کا ہندوستان جانا ایک بہت بڑا سوال تھا بلاول کواس اجلاس میں شرکت سے روکنے کے لیے ہندوستانی حکومت نے اپنے میڈیا کے ساتھ ساتھ ہندوستانی عوام میں منفی مہم کا زور شور سے آغاز کر دیا تھا یہاں تک کہ ایک سیاسی گروہ نے بلاول کے سرپر انعامی رقم کا اعلان بھی کر دیا تھا۔ اس ساری صورتحال کے باوجود پاکستانی حکومت کے ساتھ ساتھ بلاول بھٹو نے دلیرانہ فیصلہ کیا ہندوستان پہنچے پاکستان کے علاقائی اور عالمی مسائل کے حوالے سے موقف کا بھر پور اظہار کیا۔
بلاول بھٹو کے دورے کے حوالے سے ہندوستان کی ساری منفی پروپیگنڈہ مہم ناکام ہو گئی۔بلاول بھٹو نے دہشت گردی کے حوالے سے جب ہندوستانی الزام کا جواب کشمیر میں جاری ہندوستانی دہشتگردی کے حوالے سے دیاتو ہندوستانی حکومت اور ان کے وزیر خارجہ آپے سے باہر ہوگئے۔ حتیٰ کہ ہندوستانی وزیر خارجہ سفارتی آداب بھی بھول گئے۔ ہندوستان کے بڑے اخبار ہندوستان ٹائمز کو دیا جانے والا انٹرویو بلاول بھٹو کی صلاحیتوں کا نکتہ عروج تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ ایک سال میں اگر موجودہ اتحادی حکومت کی نمایاں کامیابی نظر آتی ہے تو وہ بلاول بھٹو کی بطور وزیر خارجہ کار گزاری ہے بلاول بھٹو نے اپنی سیاسی زندگی کے پہلے امتحان میں نہ صرف نمایاں کامیابی حاصل کی بلکہ آنے والے دنوں میں ملکی اور غیر ملکی منظر نامے میں بھٹو خاندان کی تیسری نسل کے نمائندے کی حیثیت سے دھماکہ دار انٹری دے دی ہے۔ آنے والے دنوں میں بلاول بھٹو پاکستانی سیاست کا ایک اہم کردار تو ضرور ہونگےاب دیکھنا یہ ہے کہ وزارت خارجہ کے ذریعے حاصل ہونےوالی کامیابیاں ان کے لیے عوامی سیاست کے میدان میں کتنا فائدہ مند ثابت رہیں گی۔