آج کی تاریخ

اخلاقی اقدار کا زوال(حصہ سوئم)

تحریر :ڈاکٹر ظفر چوہدری

آج سے پانچ دھائی پہلے ہمارا معاشرتی ڈھانچہ اجتماعیت کی بہت مضبوط بنیادوں پر استوار تھا۔ آج میں اسی بارے بتانا چاہتا ہوں۔ بچوں کی تربیت میں جہاں گھر اور اساتذہ کا بہت ہی مثبت کردار تھا وہیں پر گائوں یا محلہ کے بزرگوں کا بھی کردار بہت اہمیت رکھتا تھا۔ اگر کوئی بچہ غلط کام کرتا تو گائوں یا محلہ کا کوئی بھی بزرگ اس کی موقع پر ہی سرزنش کردیتا اور والدین بھی سرزنش کرنے والے کا شکریہ ادا کرتے۔پھر حالات یوں بدلے کہ چند سال پہلے نماز تراویح کے دوران ایک ڈاکٹر کے بیٹے نےمسجد میں شرارتیں اور بد تمیزی کرنی شروع کی تو ایک حاضر سروس سول جج نے اسے ڈانٹا مگروہ پھر بھی باز نہ آیا تو اس کی ہلکی سی مرمت کرکے مسجد سے نکال دیا ڈاکٹر موصوف اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس جج پر حملہ آور ہوئے اور زدوکوب کیا بعد میں ڈاکٹر موصوف نے بڑی معافیاں مانگ کر جان چھڑائی اس واقعہ کا ذکر میں اس لیے کیا ہے کہ والدین اپنے بچوں کی غیر ضروری اور بے جا حمایت کرکے خوفناک معاشرتی بگاڑ کا سبب بن رہے ہیں۔ان دنوں بزرگوں اور اساتذہ کا ادب لازم سمجھا جاتا تھا ۔نافرمان اولاد کو معاشرہ قبول نہیں کرتا تھا۔اس زمانے میں بھی برے لوگ تھے مگران کی تعداد بھی بہت کم تھی اور معاشرہ انہیں قبول بھی نہیں کرتا تھا۔
مجھے یاد ہے ایک بار غیر ارادی طور پر میں نے اپنے گائوں کے صوبیدار عاشق کو سلام نہیں کیا (صوبیدار محمد عاشق خان روہیلانوالی میں رہتے تھے بعد میں ملتان شفٹ ہوگئے)تو انہوں نے میرے والد صاحب کو شکایت کی کہ آپ کے بیٹے نے مجھے سلام نہیں کیا۔ جس پر مجھے باقاعدہ ان کے ہاں جاکر معافی مانگنی پڑی حالانکہ سچ یہ ہے کہ میں نے انہیں دیکھاہی نہیں تھا۔
لوگ ایک دوسرے کی خوشی اور غمی میں بڑے خلوص سے شریک ہوتے مجھے یاد ہےاس دور میں ہماری بھینس مر گئی تو بہت ساری عورتیں میری والدہ کے پاس افسوس کرنے آئیں یہ سب آج کی نسل کے لیے حیران کن ہوگا۔کیونکہ اب تو ہمسایہ تو کیا اپنے کسی عزیز کی وفات پر بھی لوگ رسماً ہی شریک ہوتے ہیں اور جنازہ پر بھی کاروباری یا حالات حاضرہ کے موضوع پر گوہرافشانی فرما رہے ہوتے ہیں۔ اس زمانے میں کسی بیل بھینس یا گائے وغیرہ کی موت معاشی طور پر بھی خاندان کے لیے بڑے مسائل پیدا کرتی تھی دوسرا ان جانوروں سے گھر والوں کو خاص طور پر ایک لگائوبھی ہو جاتا تھا مجھے ابھی تک یادہے قربانی کے دنبے جو پٹھان لیکر آتے تھے انہیں عید قربان سے آٹھ دس ماہ پہلے خرید لیا جاتا تھااور بچوں کی طرح ہم سب ان دنبوں کا بھی خاص خیال کرتے تھے انہیں نہلانا چارہ ڈالنا اور چرانے کے لیے کھیتوں میں لے جانا ہمارا فرض اور شوق ہوتا تھا۔ قربانی کے نزدیک آنے پر ان پر رنگوں سے بیل بوٹے بنائے جاتے تھے۔ہم انہیں گلیوں میں پھراتے تھے پھر جیسے جیسے عید قرباں نزدیک آتی جاتی ہم افسردہ ہونا شروع ہو جاتے۔
جب عید کے دن قصائی ذبح کرنے گھر آتا تو ہمیں بہت برا لگتا۔ مگر والد صاحب کہتے یہ جنت میں جائے گا اللہ تعالیٰ کے پاس ۔ مگر جیسے ہی چھری پھیری جاتی ہم بھائی رونا شروع کر دیتے اور اس کا گوشت کھانے کو تو بالکل دل نہیں کرتا تھا۔والدین اور نانی اماں زبردستی کھلانے کی کوشش کرتی تھیں بہت کم گوشت گھر والے رکھتے تھے اورزیادہ تر رشتہ داروں وغریبوں میں تقسیم کر دیا جاتاتھا مگر آج کل قربانی بھی شان و شوکت بڑھانے اور اپنی مالی حیثیت کا رعب جمانے کا ذریعہ بنا دی گئی ہے۔ مہنگے سے مہنگا جانور خرید کر محلہ اور دوستوں میں اس کی نمائش کی جاتی ہے سفید پوش طبقہ قربانی سے ایک دن پہلے جانور خرید کر زیادہ تر گوشت ڈیپ فریزر کی نذر کر دیتا ہے اور غریبوں کے لیے بچاکچھا گوشت اوجھری یا چربی بانٹ کر سنت ابراہیمی کی ادائیگی پر اپنے فرائض سے سر سرخرو ہو جاتا ہے فلسفہ قربانی علما کرام کی تقریریں اور تحریریں تو آجکل محض تفریح طبع کام آتی ہیں کہ ان میں سے اکثر بھی اس طرح ہی سے آجکل سنت ابراہیمی پر عمل کرتے ہیں۔

شیئر کریں

:مزید خبریں