غزہ: غزہ کی مظلوم مائیں رات بھر بےچینی سے جاگتی ہیں، محض اس خوف کے ساتھ کہ کہیں ان کے بھوک سے نڈھال بچے خاموشی سے دم نہ توڑ دیں۔
امریکی نشریاتی ادارے سی این این نے ان ماؤں سے گفتگو کی جن کے بچے مسلسل بمباری، محاصرے اور خوراک کی شدید قلت کے باعث زندگی اور موت کے درمیان جھول رہے ہیں۔ 7 اکتوبر 2023 سے جاری اسرائیلی جارحیت نے غزہ میں انسانی بحران کی انتہا کر دی ہے، جہاں لاکھوں افراد فاقہ کشی کا شکار ہیں۔
اب تک 300 سے زائد بچے غذائی قلت کے باعث جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، جبکہ تقریباً 9 لاکھ بچے خوراک کی کمی سے متاثر ہیں۔
ایک بےبس ماں نے سی این این کو بتایا کہ اسپتال کے ایک ہی کمرے میں چار بچے بھوک سے جاں بحق ہو چکے ہیں، اور اسے ڈر ہے کہ اس کی کمزور بیٹی بھی پانچویں نہ ہو جائے جس کا وزن دائمی اسہال کے باعث صرف تین کلوگرام رہ گیا ہے۔
ماں نے آنکھوں میں آنسو لیے بتایا کہ وہ خود اس قدر لاغر ہو چکی ہے کہ اپنی بچی کو دودھ پلانے کی سکت نہیں رکھتی۔ رات بھر جاگتی رہتی ہے کہ کہیں بیٹی کی سانسیں خاموش نہ ہو گئی ہوں۔
غزہ کی درجنوں ماؤں نے بتایا کہ نہ دودھ دستیاب ہے اور نہ فارمولا فیڈ۔ لوگ چائے اور پانی پر گزر بسر کر رہے ہیں۔
اسی طرح ہدایہ المتواق نامی ماں نے اپنے تین سالہ بیٹے محمد کی حالت پر روتے ہوئے کہا کہ اس کا وزن 9 کلوگرام سے گر کر صرف 6 کلوگرام رہ گیا ہے اور وہ اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے قابل بھی نہیں رہا۔ اس نے کہا: “اگر کھانا ہو تو کھاتے ہیں، ورنہ بس اللہ کی رحمت کا انتظار کرتے ہیں۔”
سی این این کے نمائندوں کے مطابق غزہ کے اسپتالوں اور کیمپوں میں بچوں کی دھنسی آنکھیں اور نکلی ہوئی پسلیاں انسانی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہیں۔
