نظام قدرت کا ادراک رکھنے والے ماہرین پہاڑی ندی نالوں، دریاؤں اور پوٹھوہاری علاقوں کے آبی چینلز کوہ سلیمان کی رودکوہیوں کے راستوں میں پڑے ہوئے گول پتھروں کو پہاڑوں کے انڈے کہتے ہیں اور ان کا موقف یہ ہوتا ہے کہ یہ انڈے کسی بھی وقت بچے دے دیتے ہیں لہٰذا جہاں بھی کہیں گول پتھر موجود ہو وہاں کسی بھی قسم کی تعمیرات نہ کی جائیں حتیٰ کہ ان پر دیر تک قیام بھی نہ کیا جائے کہ یہ پہاڑی پانی کے راستے ہوتے ہیں اور یہ کئی سال خشک بھی رہیں تب بھی کبھی نہ کبھی ان میں تباہ کن سیلابی پانی اپنے ان انڈوں کو سیکنے کے لیے ضرور آتا ہے اور پہاڑوں سے آنے والے پانی کی ولاسٹی یعنی بہاؤ کی رفتار اتنی زیادہ ہوتی ہےکہ کوئی بھی سٹرکچر اس کے مقابلے میں ٹھہر نہیں سکتا۔
قرآن مجید نے بھی پہاڑوں کو زمین کی میخیں قرار دیا ہے یعنی کہ یہ پہاڑ زمین کو قابو میں رکھنے کیلئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے گاڑے گئے بہت بڑے بڑے کیل ہیں جو زمین کو اپنی جگہ سے سرکنے نہیں دیتے۔ اب پہاڑوں کی کیلیں یا میخیں تو درختوں ہی کو قرار دیا گیا ہے اور یہ درخت ہی ہیں جو پہاڑی پتھروں اور مٹی کو بارش کے پانی کا مقابلہ کرنے کی قدرتی طاقت دیتے ہیں کیونکہ درختوں کی جڑیں پہاڑوں پر میخوں کی طرح گڑی ہوئی ہوتی ہیں۔
اب ’’مافیاز کے پاکستان‘‘میں گزشتہ 77 سال سے لکڑی چوری ہو رہی ہے اور مسلسل ہو رہی ہے۔ جنگلات کٹ رہے ہیں، نئے درخت لگائے نہیں جا رہے اور درختوں کے حوالے سے قائم محکمہ جنگلات از خود درختوں کا سب سے بڑا دشمن اور درختوں کی چوری کرنے والوں کا ملک بھر میں سب سے بڑا سہولت کار ہے۔ قانون تو یہ کہتا ہے کہ جہاں پر جنگل موجود ہو اس کے قریب لکڑی کو چیرنے کی آرا مشین نہیں لگ سکتی مگر پاکستان میں جنگلوں کے عین درمیان میں آرے لگے ہوئے ہیں جو دن رات درختوں کو کاٹتے ہیں مگر ان کی جگہ پر نئے درخت نہیں لگائے جاتے۔
18 سال قبل میں اس وقت کے سرائیکی بیلٹ کے سی این این کہلانے والے وسیب ٹی وی چینل کا ڈائریکٹر نیوز اور کرنٹ افیئرز تھا۔ علی پور میں وسیب ٹی وی چینل کے زیر اہتمام ایک کھلی کچہری کے دوران ایک شخص نے توجہ دلائی کہ علی پور کی دریائی بیلٹ سے ہر سال کروڑ ہا روپے کی لکڑی چوری ہو رہی ہے اور مقامی رکن اسمبلی ٹمبر مافیا اور لکڑی چوروں کے سب سے بڑے سہولت کار ہیں۔ دلچسپ امر یہ تھا کہ مذکورہ رکن اسمبلی بھی وہیں پر موجود تھے اور اس وقت کے ڈی پی او مظفرگڑھ رائے طاہر جو کہ ان دنوں آئی جی ریلوے ہیںبھی اس کھلی کچہری میں موجود تھے، ٹمبر مافیا پر گرما گرم گفتگو ہوئی تو میں نے سینکڑوں افراد کی موجودگی میں ایک تجویز رکھ دی کہ پاکستان میں لکڑی چوری اور درختوں کی کٹائی تو رک نہیں سکتی کیونکہ یہ آلودہ کاروبار صدیوں سے جاری ہے البتہ لکڑی چوروں اور ان کے سہولت کاروں سے یہ اپیل تو کی جا سکتی ہے کہ جہاں سے 30، 40 ہزار روپے کا ایک درخت چوری کریں وہیں پر ایک روپے کا چھوٹا سا درخت لگا دیا کریں کیونکہ چوروں کے گھر چور ہی پیدا ہوتے ہیں اور جو آج کے ٹمبر مافیا کے لوگ کر رہے ہیں آنے والے دنوں میں ان کی اولادوں نے بھی یہی کچھ کرنا ہے۔ یہ پاکستان یا ملک و قوم کا سوچیں نہ سوچیں مگر اپنی اولاد اور آنے والی نسلوں کا تو ضرور سوچیں کہ جب سارے کے سارے درخت یہ کاٹ لیں گے اور جنگلوں کا صفایا کر دیں گے تو ان کی اولاد کہاں سے کھائے گی؟کہاں سے درخت چوری کرے گی؟ لہٰذا اپنی اولاد کی سہولت کیلئے جہاں جہاں سے یہ درخت کاٹ رہے ہیں اور چوری کرکے بیچ رہے ہیں وہیں ایک ننھا پودا لگا دیں تاکہ ان کی اولاد کے روزگار کا انتظام ہو سکے اور جھونگے میں عوام کو بھی فضائی آلودگی سے بچایا جا سکے۔ میری اس تجویز کو پسند تو بہت کیا گیا مگر اس پر کسی نے عمل نہیں کیا اور کرتا بھی کیوں کہ اس میں تو سراسر رسک تھا۔ کل کلاں ان کے بچوں کی جگہ کسی مخالف کے بچوں نے یا کسی اور کے بچوں نے اس خطے کی ذمہ داری سنبھال لی اور انہوں نے درخت کی چوری شروع کر دی، جب ان کے ہاتھوں سے لگائے گئے درخت پھل پھول کر بڑے ہو جائیں گے تو ایسا نہ ہو کہ کوئی اور کاٹ کر لے جائے اور ان کے بچے محروم رہ جائیں۔
قارئین کرام: آپ سیالکوٹ کی تحصیل ڈسکہ کے دریا میں ڈوبنے والے بدقسمت خاندان کی آخری ویڈیوز ملاحظہ فرمائیں، وہ سب کے سب بھی دریا کے کنارے گول پتھروں پر ہی بیٹھے ہوئے تھے یعنی دریا کے انڈوں پر بیٹھے تھے جنہیں کھینچنے کے لیے بالآخر دریا پہنچ گیا اور اپنے انڈوں پر کون کسی دوسرے کو بیٹھنے دیتا ہے۔ بس پھر یہ 16 افراد پر مشتمل خاندان کو بھپرے ہوئے دریا کی موجوں نے زندگی سے موت کی طرف روانہ کر دیا۔ یہ سوشل میڈیا کا دور ہے اور ہر کسی کے ہاتھ میں موبائل فون میں کیمرہ ہے۔ ہزاروں ویڈیو زاپلوڈ ہو چکی ہیں کہ کس طرح پہاڑی پانی تباہی پھیلاتے ہوئے میدانوں کی طرف آ رہا ہے۔ کوئی بھی جا کر سروے کر لے، اب تو ڈرون کیمرے بھی آگئے ہیں جن پہاڑوں پر گھنے درخت موجود ہیں ان پہاڑوں کا کٹاؤ اور لینڈ سلائیڈنگ دوسری دیگر ایسے پہاڑ جو درختوں سے محروم کر د یئے گئے ہیں کی نسبت کئی گنا کم ہے اور یہی ثبوت ہے کہ ہم نے درختوں کی میخیں کاٹ دی تو پہاڑ زمین پر آن رہے۔ گلگت سے ایک دوست نے بتایا کہ عطا آباد کا جو بلند قامت پہاڑ زمین بوس ہو کر ایک دریا کو عطا آباد جھیل کی شکل دے گیا، اس پر بھی کبھی درخت ہوا کرتے تھے مگر درخت کٹتے رہے اور پھر وہ پہاڑ آہستہ آہستہ سرکتا رہا اور ایک دن زمیں بوس ہو گیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا اسلام آباد سے لے کر گلگت تک اور پورے کے پی کے میں درختوں کی چوری نہیں ہو رہی؟ کیا ہر دور کے اراکین اسمبلی اور سرکاری افسران ٹمبر مافیا کے سہولت کار نہیں رہے؟ کیا ہر دور میں قومی و صوبائی اسمبلی کے ممبران لکڑی چور نہیں رہے؟ کون ہے جو دریاؤں اور پہاڑی نالوں کے راستوں میں موجود گول پتھروں پر کنکریٹ کے ہوٹل اور عمارات تعمیر کرنے کی اجازت دیتا ہے؟ کیا آج تک پاکستان میں بننے والی کسی بھی حکومت نے اسے روکنے کی کوشش کی؟ کیا اس مکروہ دھندے کی ہر کسی نے سہولت کاری اور سرپرستی نہیں کی؟۔
کسی اللہ والے نے بہت سال پہلے ایک محفل میں یہ بات کہی تھی کہ ظلم اور حرام کا پیسہ انسان کو اتنا متکبر بنا دیتا ہے کہ وہ قدرت سے بھی ٹکر لینے سے باز نہیں رہتا اور اسے قرآن مجید کی سورت الحاکم التکاثر کا ترجمہ بھی سمجھ میں نہیں آتا اور نہ ہی سورۃ کہف کی آیت نمبر 35 سے 40 میں اللہ تعالی کی طرف سے دی گئی واضح اور کھلی وارننگ اس کی عقل پر پڑے ہوئے پردوں کو ہٹا سکتی ہے۔
