ملتان(کرائم سیل)سی سی ڈی سرکل کبیروالا نے سرائے سدھو کے لیاقت بھٹی قتل کیس کے ملزم صفدر عرف صفدری لپرا کوگرفتار کرکے ایک ہفتہ اپنی تحویل میں رکھا ۔مبینہ طور پر جھنگ، ٹوبہ ٹیک سنگھ اور مظفرگڑھ کے علاقوں سے بھی پکڑ دھکڑ کی اور ایک ہفتہ کے بعد اچانک اسے تھانہ سرائے سدھو پولیس کے حوالے کردیا جس نے علاقہ مجسٹریٹ کو پیش کرکے جسمانی ریمانڈ لے لیا ۔ لیاقت بھٹی کے والد رستم بھٹی نے قوم کو بتایا کہ 2013 ء میں مویشیوں کے بیوپاری شیخ عبداللطیف کاڈالا روک کر صفدری لپرا نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے قتالپور کے نزدیک فائرنگ کرکے قتل کر دیا تھا اور مدعی فریق پر دباؤ ڈالنے کیلئے مقتول کے بھتیجے علی رضا کو مبینہ طور پر اغوا کر لیا جس کا مقدمہ نمبر 246/15 تھانہ سرائے سدھو میں درج ہے اور وہ ٹرائل کورٹ سے بری ہوگیا اور تیس سے زائد افراد پر مشتمل جیل میں ایک گینگ تیار کیا اور جھنگ، ٹوبہ ٹیک سنگھ اور مظفر گڑھ میں وارداتیں کرنے لگ گیا ۔درجن سے زائد میں مقدمات میں نامزد ملزم بیان کیاجاتاہے جسمیں قتل اغوا ڈکیتی اور چوری کے مقدمات شامل ہیں ۔چوہدری شہبازچدھرڑ کے سب انسپکٹر ذیشان گل کے ساتھ تعلقات ہیں جو لیاقت بھٹی کے قتل کے وقت تھانہ سرائے سدھو کے ایس ایچ او تھے چنانچہ صفدری لپرا کو پولیس نے گرفتار نہ کیا جس پر رستم بھٹی نے سی سی ڈی ملتان ریجن کے ایس ایس پی کےپاس پیش ہوکر فریاد کی اور یوں سی سی ڈی کبیروالا نے صفدری لپرا کو گرفتار کیا۔ رستم بھٹی کے بیان کے مطابق ہم خانیوال کے ڈی پی او کے پاس کئی مرتبہ فریاد لے کر گئے مگر ذیشان گل سب انسپکٹر رکاوٹ بنتا رہا لیکن اسکے برعکس سی سی ڈی کے ریجنل آفیسر کو ایک بار فریاد کی تو صفدر لپرا فریاد کرنے کے چوبیس گھنٹے بعد گرفتار کر لیا گیا۔ لیاقت بھٹی کے والد رستم بھٹی نے اپنے بیان میں یہ انکشاف بھی کیا کہ ایڈیشنل آئی جی جنوبی پنجاب نے ذیشان گل کے خلاف دی جانے والی درخواست پر ایس پی انوسٹیگیشن خانیوال کو تحقیقات کاحکم جاری کیا تھا لیکن خانیوال پولیس سے ہمیں انصاف نہ ملا۔ میں نے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کو بھی انکے کمپلینٹ سیل اور ہیلپ لائن کے ذریعے انصاف کی فراہمی کی اپیل کی جس پر گذشتہ روز ڈی پی او خانیوال نے مجھے طلب کیا تھا اور ایک بار پھر انکے سامنے ہاتھ جوڑ کر عرض کیا مجھے انصاف چاہئے۔
