اسی (80) کی دہائی میں فیروز پور روڈ لاہور پر واقع کیمپ جیل کے عقب میں جنرل ضیا الحق کے دور میں ایک عارضی پھانسی گھاٹ بنوا کر لاہور سے اغوا کے بعد قتل ہونے والے پپو نامی ایک معصوم بچے کے تین قاتلوں کو سرعام پھانسی دی گئی تھی، کوئی بھی ریسرچ کرنے والا ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لے کہ اس پھانسی کے بعد پنجاب بھر میں کئی سال تک کوئی بھی بچہ اغوا نہیں ہوا تھا اور قتل و ڈکیتی کی وارداتیں بھی انتہائی کم ہو گئی تھیں۔ پنجابی فلموں جیسے’’بہادر‘‘اچانک مکمل طور پر زیر زمین چلے گئے یا پھر غائب ہو گئے تھے اور دور دور تک ان کا کوئی وجود ہی نظر نہیں آتا تھا۔
گزشتہ روز میں ملتان کے ایک تاجر دوست شیخ اشتیاق احمد کے والد محترم کے انتقال پر افسوس کے لیے میں ان کے گھر گیا تو وہاں ایک امام مسجد بیٹھے ہوئے تھے، انہوں نے بتایا کہ میں مسجد میں نماز پڑھا کر فارغ ہوا تو ایک نوجوان آ گیا، اس نے کہا کہ میں اعلانیہ معافی مانگنا چاہتا ہوں اور قران مجید پر حلف دینا چاہتا ہوں کہ میں آئندہ سے کسی بھی قسم کا غیر قانونی کاروبار نہیں کروں گا اور نہ ہی شراب فروشی کروں گا پھر اس نے مسجد میں متعدد لوگوں کی موجودگی میں توبہ کی اور قرآن پر حلف دیا۔ امام صاحب اور وہاں پر موجود دیگر لوگوں نے بتایا کہ انہیں علم ہی نہیں تھا کہ وہ نوجوان بھی شراب فروشی کرتا ہے یہ اچانک خدا کا خوف نہیں بلکہ سی سی ڈی کا خوف اسے توبہ پر مجبور کر گیا کیونکہ اگر خدا کا خوف ہوتا تو وہ یہ مکروہ دھندہ ہی نہ کرتا، اس پر پنجابی کے ایک مشہور مثال صادق آتی ہے جو ہے تو مزاحیہ انداز میں مگر اس کے حقائق تلخ اور گہرے ہیں۔ وہ مثال کچھ یوں ہے’’رب نیڑے کہ کھسن نیڑے‘‘ کھسن زوردار مکے کو کہتے ہیں۔
خانیوال کے علاقے چھب کلاں کا ایک سابق پولیس ملازم مجھے بتا رہا تھا کہ وہ دو سال سے زائد اس تھانے میں تعینات رہا۔ اب ایسے ایسے لوگوں کی توبہ اور معافیاں سامنے آ رہی ہیں جن کے بارے میں تھانے والوں کو علم ہی نہیں تھا کہ یہ بھی جرائم پیشہ اور سماج دشمن عناصر ہیں۔ آپ سوشل میڈیا اٹھا کر دیکھ لیں وہ جو اسلحہ لہرا کر ویڈیوز بناتے تھے وہ کہاں گئے؟ وہ ویڈیوز کہاں گئیں؟ کس نے ڈیلیٹ کیں؟۔ یہ اچانک سوشل میڈیا پر عرصے سے جاری غنڈا گردی کی موٹیویشن کدھر گم ہو گئی۔ ویسے بھی کنٹرول تو ہائی کمانڈ سے ہوتا ہے نیچے سے نہیں۔
سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں جب ملک بھر کے کرپٹ افراد کی نیب نے فہرستیں تیار کی تھیں تو ان میں ایک پراپرٹی ٹائیکون سر فہرست تھے اور اسی لسٹ میں دوسرے نمبر پر وسطی پنجاب کے ایک کنسٹرکشن کمپنی کے مالک تھے، پھر اچانک اس لسٹ میں سے یہ پہلے دونوں نام ہٹا دیئے گئے اور چند ہفتوں کے وقفے کے بعد نیب ہیڈ کوارٹر اسلام آباد کی طرف سے سرکاری ٹی وی چینل کی سکرین پر خوب ڈھنڈورا پیٹا گیا کہ کرپشن کے الزام میں لودھراں کا ایک پٹواری گرفتار کر لیا گیا ہے۔ گویا پراپرٹی ٹائیکون سے احتساب ترقی کرتا کرتا پٹواری تک جا پہنچا۔ میں سلام پیش کرتا ہوں سی سی ڈی کے سربراہ کو جنہوں نے اس کے قیام کے ساتھ ہی چند بڑے گھروں کو ہاتھ ڈال دیا تو گلی محلے کے بدمعاش از خود ہی توبہ تائب ہونے لگے۔
بات اور طرف نکل جائے گی مگر چلتے چلتے میں میاں محمد اظہر کا قصہ بھی سنا دوں جنہیں لارڈ میئر لاہور سے اچانک گورنر بنا دیا گیا تھا۔ کہانی کچھ یوں تھی میاں اظہر نے لاہور میں تجاوزات کے خلاف گرینڈ آپریشن کرنے کا فیصلہ کیا تو آپریشن کا آغاز ہی ماموں حمید کے بیڈن روڈ پر ایک گلی گھیر کر بنائے گئے نرالا آئس کریم پارلر کو گرا کر کیا۔ بتاتا چلوں کہ مذکورہ آئس کریم پارلر کے مالک کو ماموں حمید اس لیے کہا جاتا تھا کہ وہ میاں نواز شریف کے ماموں تھے اور ان پر ہاتھ ڈالنا کسی کے بس میں نہ تھا۔ یہ کام میاں اظہر ہی کر سکتے تھے۔ جب ماموں حمید کی دکان گرا دی گئی تو بڑے بڑے قبضہ مافیا نے از خود ہی قبضے چھوڑ دیئے، تھڑے گرا دیئے اور تجاوزات اپنے ہاتھوں سے ختم کرنا شروع کر دی۔ میاں اظہر کے اس آپریشن کے بعد لاہور کے تاجر اور حکومتی پارٹی کے بااثر لوگ میاں نواز شریف کے سامنے ہاتھ جوڑ کر بیٹھ گئے کہ ہمیں میاں اظہر سے بچائیں جس پر اچانک میاں اظہر کو لارڈ میئر سے گورنر بنا کر بظاہر تو کھڈے لائن لگایا گیا مگر میاں اظہر وہاں بھی ٹک کر نہ بیٹھے اور انہوں نے اس دور میں تاریخ کا سب سے بڑا آپریشن گوجرانوالہ کے تھانہ وانڈھو کہ علاقے میں کیا تھا جو کامونکی اور گوجرانوالہ کے مشرقی سمت کا طویل عرصے سے نو گو ایریا بنا ہوا تھا اور چند ہی دنوں میں درجنوں دیہات پر مشتمل یہ علاقہ غنڈوں سے مکمل طور پر پاک ہو گیا تو سابق وزیراعلیٰ غلام حیدر وائیں اس پر چیخ اٹھے کہ میاں محمد اظہر ان کی ڈومین میں مداخلت کر رہے ہیں، واقفان حال کہتے ہیں کہ غلام حیدروائیں از خود نہیں بلکہ انہیں یہ شور ڈالنے پر مجبور کیا گیا تھا اور ویسے بھی ان کی حکومت تو پیٹی کوٹ گورنمنٹ تھی۔ اس طرح میاں اظہر کو بطور گورنر پنجاب محض مہمان داری تک محدود کر دیا گیا۔
تاریخ خود کو کیسے تبدیل کیا ہے کہ انہی میاں نواز شریف کی بیٹی مریم نواز شریف نے پنجاب میں تجاوزات کے خلاف گرینڈ آپریشن کرکے اور اس کے بعد سی سی ڈی کے ذریعے غنڈوں کو نتھ ڈال کر کمال کر دیا ہے۔ ابھی بھی یہ غنڈے سیاسی لوگوں ،زمینداروں کے ڈیروں پر پناہ لیے ہوئے ہیں اور مجھے جو معلومات ملی ہیں ان کے مطابق پنجاب کے بہت سے علاقوں میں اب بھی یہ موجود ہیں اور ہمارے نمائندگان کی طرف سے فراہم کردہ اطلاعات کے مطابق پنجاب کے بعض علاقوں جن میں خیرپور ٹامیانوالی، یزمان کی چولستانی بیلٹ، ہیڈ راجکاں، رحیم یار خان کا علاقہ بنگلہ اچھا، شاہ والی، سرگودھا کا علاقہ مڈ رانجھا اور جھاوریاں، گوجرانوالہ کے علاقہ نوشہرہ ورکاں، تھانہ ساہوکا ضلع وہاڑی، جلال پور پیر والا، خیرپور سادات، گجرات اور بھمبر کی درمیانی پٹی، تحصیل تونسہ کا علاقہ فاصلہ، چک جھمرہ، گوجرہ، نارنگ منڈی سمیت بہت سے علاقوں میں ابھی تک بھی جرائم پیشہ عناصر کی زیر زمین اور اندر خانے سرپرستیاں جاری ہیں اور ان کے سہولت کار بھی موجود ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سی سی ڈی کے سربراہ سہیل ظفر چٹھہ نے بہت قلیل عرصے میں پورے پنجاب میں اس ڈیپارٹمنٹ کا نیٹ ورک مکمل کیا ہے۔ اتنے قلیل عرصے میں عملے کا انتخاب خاصا مشکل کام ہوتا ہے مگر وہ بہت حد تک اس میں کامیاب ہوئے ہیں تاہم اب بھی کچھ گندی مچھلیاں اس ادارے میں داخل ہو چکی ہیں جو اس ادارے کی ساکھ کو خراب کر رہی ہیں اور بعض علاقوں میں پیسے اور پیسے بھی اچھے خاصے لینے کی شکایات ہیں جن کا بہرحال محترم سہیل ظفر چٹھہ کو ازالہ کرنا ہو گا، کیونکہ کوئی کامیابی یا سٹیٹس تو اتفاقیہ بھی مل جاتا ہے مگر اسے برقرار رکھنا اور اس کا بھرم قائم رکھنا ہی اصل کمانڈ ہوتی ہے۔
مجھے اس کالم کی پہلی قسط پربہت زیادہ رسپانس ملک بھر سے ملا اور لوگوں نے یہاں تک بھی کہا کہ کچھ بھی ہو پولیس کو ماورائے عدالت جاتے ہوئے لوگوں کی زندگیوں سے نہیں کھیلنا چاہیے اور اس پر بہت سے مضبوط دلائل بھی سامنے آئے جن کا احاطہ میں اگلی قسط میں حوالے اور مثالوں کے ساتھ کروں گا اور قارئین سے امید رکھوں گا کہ وہ مجھے اس پر اپنی رائے سے ضرور آگاہ کرتے رہیں گے۔ (جاری ہے)
