مسافر
طارق قریشی
اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد عمران خان نے اپنی ہر ممکن کوشش کر لی کہ کسی طرح اتحادی حکومت الیکشن کی طرف آ جائے‘ دھرنے‘ اسلام آباد کا گھیراو‘ لانگ مارچ اور احتجاجی ریلیوں کے باوجود اتحادی حکومت نے عمران خان کے مطالبے کو ماننے اور نئے انتخابات وقت سے پہلے کرانے پر کسی قسم کی لچک نہ دکھائی۔ عمران خان نے آخری پتہ پھینکا اور دو صوبوں میں قائم اپنی حکومتوں کو ختم کرتے ہوئے اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اعلان کر دیا۔ پنجاب کے اس وقت کے اتحادی اور آج کے تحریک انصاف کے صدر پرویز الٰہی نے بہت سمجھایآ، اسٹیبلشمنٹ کے موڈ کا بھی بتایا مگر عمران خان ٹس سے مس نہ ہوئے۔ اسمبلی کی تحلیل زبردستی کہیں یا مجبوری کہیں پرویز الٰہی کو یہ کڑوا گھونٹ پینا ہی پڑا۔ پنجاب اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد خیبر پختونخواہ کے محمود خان کے پاس بھی کوئی عذر باقی نہ تھا سو محمود خان نے بھی نہ چاہتے ہوئے اسمبلیاں تحلیل کرنے کا عمل مکمل کر دیا۔ عمران خان کا مسئلہ یہ ہے کہ نہ وہ سیاستدان تھا نہ ہی اس نے سیاست دان بنے کی کوشش کی۔ اپنے فین کلب کو سیاسی جماعت میں تبدیل کرنے کے بعد عمران خان نے سیاست دان بننے کے بجائے اپنے لیے مہاتما اور دیوتا کا روپ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا سو وہ آج بھی سیاست دان سے زیادہ اپنے آپ کو مہاتما اور دیوتا ہی سمجھتا ہے۔ سونے پہ سہاگہ کہ اسے بشری مانیکا جیسا مرشد بھی مل گیا۔ مہاتما اور مرشد کے اس اتحاد نے سیاست سے مکالمہ‘ باہمی مشورے، سیاسی حکمت عملی اور اجتماعی فیصلوں کی ضرورت ہی ختم کر ڈالی۔ اب دیوتا کا فیصلہ ماننا چیلوں کے لیے ایمان کا درجہ رکھتا ہے اس لیے مجموعی مشاورت اسمبلیوں کی تحلیل کے خلاف ہونے کے باوجود اس فیصلے پر عمل کیا گیا۔ اسمبلیوں کی تحلیل کے ساتھ ہی تحریک انصاف کے ساتھ ساتھ خود ساختہ سیاسی تجزیہ نگاروں نے الیکشن کی تاریخ کے ساتھ ساتھ اپنی اپنی خواہشات کے مطابق دونوں صوبوں میں الیکشن کے نتائج بھی سنانے شروع کر دیئے اپنی اپنی پسند کے وزرائے اعلیٰ کی مہم بھی شروع ہو گئی۔ سیاست اور پاکستانی سیاست کے ایک طالب علم کے طور پر میں نے اسمبلیوں کی تحلیل کے فوراً بعد ہی انہی صفحات پر تحریر کیا تھا کہ انتخابات نہ ہی نوے دن بعد ہونگے نہ ہی کسی عدالت کے حکم کے باوجود ان کا انعقاد ممکن ہوگا۔ یاد رہے ابھی انتخابات کا معاملہ نہ تو عدالت عالیہ میں تھا نہ ہی یہ معاملہ ابھی عدالت عظمی تک پہنچا تھا۔ میری دلیل ہی یہی تھی کہ انتخاب جب بھی ہوں گے ایک ساتھ ہی ہوں گے کہ نہ سیاسی جماعتیں اور نہ ہی ملک کی سٹیبلشمنٹ اس بات کی متحمل ہو سکتی ہے کہ دو صوبوں میں پہلے اور باقی ملک میں بعد میں انتخابات کرائے جائیں ایک بار یہ سلسلہ شروع ہوگیا تو ملک میں انتخابی عمل ہی مشکوک ہو جائے گا۔ مگر اس وقت خود ساختہ اور جغادری تجزیہ نگار کبھی آئینی سوشگافیوں کی بات تو کبھی عدالتی اختیارات کے ساتھ ساتھ توہین عدالت کے ڈنڈے کی بات کرنے میں مصروف تھے ان کے ساتھ ساتھ آج کل الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کی سوغات ہمارے نجومی حضرات کا گروہ بھی میدان میں روز نئے زائچے سنانے میں مصروف تھے ہمارے ایک دوست اور شہر دار ڈاکٹر صاحب جو آج کل زمان پارک کے حلقہ ارادت میں بہت مقبول ہیں انہوں نے پہلے 30 اپریل جو کہ صدر علوی نے تاریخ دی تھی کو اٹل تاریخ بیان فرمایا اور بعد میں عدالت عظمی کی تاریخ 14 مئی کو تو پتھر پر لکیر قرار دے دیا میں نے موصوف کو اس وقت بھی کہا تھا کہ ستاروں کی چال یا زائچے کا حال آپ کو علم ہوگا مگر اس طالب علم کا تجزیہ یہی ہے کہ ابھی الیکشن کی منزل بہت دور ہے مگر وہ ہمارے سیاسی چال چلن کو بالائے طاق رکھ کر ستاروں کی چال میں الجھے کر اپنے تبدیل شدہ موقف پر بار بار ڈٹ جاتے ہیں۔ اب جبکہ الیکشن کمیشن نے عدالت عظمی کو تحریری طور پر بیان کر دیا ہے 14 مئی کو انتخابات کا امکان ممکن ہی نہیں۔ گزشتہ سماعت کے موقع پر جناب چیف جسٹس کا یہ فرمانا کہ ہمیں پہلے کیوں نہیں بتایا گیا کہ صوبوں میں علیحدہ علیحدہ انتخابات ممکن نہیں اب جناب چیف جسٹس کو یہ کون سمجھائے حضور آپ پہلے کچھ سننے کے لیے تیار ہی نہ تھے ویسے بھی کمزور کے مشورے یا سمجھانے کو عدالت عظمی کے طاقتور کہاں مانتے ہیں یہ تو طاقتور ہی زور آوروں کو سمجھا سکتے ہیں اور پھر طاقتور تو زبان بھی اشاروں ہی کی بولتے ہیں سو اشارے اشاروں میں بات کہہ بھی دی گئی اور سمجھنے والوں کو سمجھ بھی آ گئی۔ آخر کار اب بات تحریک انصاف کے مہاتما کو بھی سمجھ آ گئی ہے کہ موصوف نے ایک بار پھر غلط موقع پر پتہ پھینک دیا، مقدمے بھی بنوائے، قریبی لوگوں کو جیل کی ہوا بھی کھلوائی، بالٹی میں منہ بھی چھپانا پڑا مگر الیکشن کا حصول ممکن نہ ہوسکا۔ اب موصوف خفت مٹانے کے لیے ایک ہی دن پر انتخابات پر راضی ہو گئے ہیں مگر ابھی کس بل کچھ باقی ہیں سو ابھی اپنی شرائط کے ساتھ۔ اب چور ڈاکوئوں کے ساتھ بیٹھنے پر بھی راضی ہیں کچھ اگر مگر کے ساتھ۔ اس بار جھنجلاہٹ اور ہٹ دھرمی کے باعث عمران خان نے اپنے ہمدردوں کو بھی امتحان میں ڈال دیا ہے۔ بے جا ضد نے جہاں منصفوں کو پریشان کر دیا ہے وہیں پردہ پوش بھی تیزی سے بے پردہ ہوتے جارہے ہیں۔ الیکشن کب ہونگے سے زیادہ اب یہ بات اہمیت اختیار کرتی جا رہی ہے کہ انتخابات ہوں گے بھی یا نہیں اگر ہوں گے تو سب کے لیے ان کے نتائج قابل قبول بھی ہوں گے یا نہیں۔ سیاست دان اور فاسٹ بولر میں فرق ہوتا ہے سیاست دان غصے پر کنٹرول کرنا جانتا ہے مخالف کو نہ دشمن سمجھتا ہے نہ اس کا سر پھاڑنے کی کوشش کرتا ہے جبکہ فاسٹ بولر اپنی گیند پر چھکا لگنے پر بائونسر کے ذریعے مخالف بلے باز کے سر یا منہ کو نشانہ بنا کر زخمی کرنا چاہتا ہے اسی غصے میں چھکے چوکے کھاتا جاتا ہے اور جب فاسٹ بولر مہاتما بھی بن بیٹھے تو سیاست کے میدان میں کھیل کے علاوہ سب کچھ ہو سکتا ہے مگر کھیل نہیں۔ برصغیر کی سیاسی تاریخ میں پہلے بھی ایک سیاست دان نے مہاتما بننے کی کوشش کی تھی مہاتما تو وہ بن گیا مگر سیاست دانوں نے حکمرانی ملتے ہی سب سے پہلے مہاتما سے جان چھڑائی۔ پاکستانی سیاست کا مہاتما کی مقبولیت اپنی جگہ مگر پاکستان میں مقبولیت کا غبارہ بہت دیر ہوا میں نہیں رہتا۔ یہاں اصغر خان‘ رفیق باجوہ جبکہ ماضی قریب میں قاضی حسین احمد جیسے سیاست دان مقبولیت کے گھوڑے پر سوار تو ہو گئے پر اس گھوڑے کو نہ ہی کنٹرول کر سکے نہ ہی منزل پر پہنچ سکے۔