روداد ; ڈاکٹر ظفر چوہدری
میں 1965ء کے اوائل میں ریاست مالیر کوٹلہ ہندوستان گیا تھا جس کا ذکر میں پہلے بھی اپنے کالموں میں کر چکا ہوں اور تین ماہ وہاں رہا کیونکہ تین ماہ کا ہی ویزہ ہوتا تھا۔ اس دوران جو مجھے اب تک یاد ہے ایک تو ہمیں مہمان ہونے کی وجہ سے خصوصی توجہ دی جاتی تھی۔ دادی اماں، تایا جان اور چچا ہمارا خوب خیال رکھتے تھے۔ بہت پیار کرتے تھے بعد میں سمجھ میں آیا کہ وہ ہمیں پردیسی سمجھتے تھے اور ہم اپنے ہی دادا کے گھر میں مہمان تھے۔ اس سفر میں میرے تین چھوٹے بھائی بھی ساتھ تھے ۔ مجھ سے چھوٹے بھائی اکبر اور مجھ میں دو سال کا فرق تھا اس لئے ہم دونوں میں اکثر جھگڑا بھی ہو جا تاتھا۔ میری بڑی بہن جو ہندوستان میں رہ گئی تھی اس وقت شادی شدہ تھی وہ اکبر سے بہت زیادہ پیار کرتی تھی اور تایا زاد بہن مجھ سے زیادہ پیار کرتی تھی اور اکثر میں بہن نذیراں کے ہاں رہتا تھا اور اکبر بہن بشیراں کے ہاں۔ ایک دفعہ وہ دونوں دادا کے گھر موجود تھیں کہ ہم میں جھگڑا ہو گیا تو ہم دونوں نے ایک دوسرے کی چاہنے والی بہنوں کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا یہ دیکھ کر بہن نذیراں اور بہن بشیراں ہنس کر کہنے لگیں ویرو ساڈا کی قصور اے( بھائیوں ہمارا کیا قصور ہے)اس دور میں شادی یا کوئی رسم( عقیقہ) وغیرہ کرنے کیلئے اکٹھ ہوتا تھا تو مہمانوں کی تواضع ابلے چاول، دیسی گھی اور بورا ( چینی کو پیس کر پائوڈر بنا لیا جاتا تھا اسے بورا کہتے ہے) ہوتی تھی۔ جو غریب لوگ ہوتے تھے ان کے ہاں دال ، چاول پیش کئے جاتے تھے جبکہ ہمارے گوشت لازمی ڈش ہوتی تھی۔ میرے خیال میں وہاں ہندو اور سکھ بھی مدعو ہوتے تھے اس لئے کھانے میں گوشت کا استعمال نہیں ہوتا ہو گا۔ اس کے علاوہ کھیت میں جہاں چچا ہل چلاتے تھے انہیں دیسی گھی پیتے ہوئے دیکھا اور ساتھ ہی اپنے بیلوں کو بھی دیسی گھی پلاتے تھے یہ آجکل کے دور میں انہونی باتیں لگتی ہیں۔ میرے دو چچائوں نے اس وقت بڑی بڑی مونچھیں رکھی ہوتی تھیں چچا بدر دین اور فضل دین ہے دوسرے دو چچا شریعت کی پابندی کرتے تھے۔ چچا صدر الدین اور چچا مہر دین وہ جب ہل چلانے کے بعد لسی یا گھی پیتے تو مونچھوں والے چچائوں کو برا بھلا کہتے کہ تمہارا پینا مکروہ ہو گیا کہ مونچھوں کے بال لسی گھی وغیرہ کو لگ گئے ہیں مگر وہ جواب میں صرف ہنستے رہتے ۔ برکت پورہ گائوں کے دادا جان کی وفات کے بعد تایا رحیم دین کا حکم چلتا تھا یہ سارے گائوں والے ایک ہی بابا دادے کی اولاد تھے صرف دو گھر اور تھے۔ ایک اچھوت اور دوسرے گجر فیملی تھی۔ آپس میں ایک دوسرے کا بہت خیال رکھتے تھے مزے کی بات یہ تھی کوئی بھی فصل ایک ساتھ فروخت کی جاتی تھی اور اس کا فیصلہ تایا جان کرتے تھے۔ تایا جان اور چار عدد چچا جان اکٹھے مشترکہ خاندانی نظام میں جڑے ہوئے تھے۔عورتوں کے لئے زنان خانہ الگ تھا مرد الگ رہتے تھے۔ مجھے آج بھی یاد ہے جب تایا جان کھانا کھانے گھر آتے تو مکمل خاموشی ہو جاتی تھی ہم چاروں بھائی تایا جان سے باتیں کرتے تھے وہ ہمیں بہت پیار کرتے تھے کیونکہ ہم مہمان تھے۔ تایا جان اور والد صاحب کی عمروں کا فرق بھی دو سال ہی کا تھا اسی لئے ان میں بہت لگائو تھا۔ تایا جان بھی فوج میں سروس کرتے رہے مگر حوالدار کے عہدے سے جلد ریٹائرڈ ہو گئے تھے۔اس وقت کچھ بزرگ عورتیں ایک فقرہ بولتی تھیں جو مجھے سمجھ نہیں آتا تھا ۔ ہن ساڈے وچ لو ہے دی باڑ بن گئی اے( آپ ہمارے درمیان لوہے کی دیوار بن گئی ہے)خدا جانے کب تک یہ لوہے کی دیوار مشرقی پنجاب اور پاکستانی پنجاب کے درمیان حائل رہے گی ۔ تقسیم کے بعد تیسری نسل جوان ہو چکی ہے خدا جانے اور کتنی نسلیں اس لوہے کی دیوار کے ساتھ سر ٹکراتی رہیں گی اور’’ فیض یاب‘‘ ہونے والے اس غیر انسانی المیے پر اپنا ’’ دھندہ‘‘ جاری رکھیں گے۔