ملتان (سٹاف رپورٹر) بدترین مالی بحران کا شکار اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے نئے تعینات ہونے والے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد کامران بھی یونیورسٹی کو بحران سے نکالنے کے حوالے سے کوئی مثبت اقدامات نہ اٹھا سکے۔ جنسی ہراسمنٹ کی متعدد شکایات کی شکار یونیورسٹی کو بے آسرا چھوڑ کر وائس چانسلر کوہسار یونیورسٹی مری میں منعقد ہونے والی ایک غیر ضروری کانفرنس میں شرکت کے لیے مری روانہ ہو گئے جبکہ 2 روز قبل ایک نجی ٹی وی چینل کی جانب سے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں وقوع پزیر ہونے والے ہراسمنٹ کیس کی ویڈیو جاری کی گئی تھی اور اس بارے میں 1400 کے قریب یونیورسٹی ٹیچرز و 3500 سے زائد سٹاف میں شدید اضطراب کی کیفیت پیدا ہو چکی ہے۔ ایڈیشنل چیف سیکرٹری جنوبی پنجاب اس ہراسمنٹ پر تحقیقات کے لیے خصوصی طور پر بہاولپور گئے جہاں انہوں نے رپورٹ لے کر اعلیٰ حکام تک پہنچائی۔ یونیورسٹی کے تمام ملازمین اس وقت شدید ذہنی اذیت میں مبتلا ہیں جس کی بابت یونیورسٹی انتظامیہ کے بجائے یونیورسٹی اکیڈمک سٹاف ایسوسی ایشن کی جانب سے پریس ریلیز بھی جاری کی گئی ہے جس میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کی اکیڈمک سٹاف ایسوسی ایشن (ASA) کا موقف تھا کہ پاکستان کے ایک ذمہ دار نجی چینل کی جانب سے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے حوالے سے حالیہ نشر ہونے والے پروگرام میں غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا گیا ہے جس سے یونیورسٹی کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔پروگرام حقائق کے برعکس نشر کیا گیا ہے۔ ملزم کا اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کی ریگولر فیکلٹی سے کوئی نہ تعلق تھا اور نہ ہے۔ ایک عارضی و جزوقتی فرد کے انفرادی قدم کا ملبہ یونیورسٹی و اساتذہ پر ڈال دیا ہے۔ صد سالہ تاریخ کی حامل یونیورسٹی کے1300 سے زائد اساتذہ، پینتیس سو سے زائد ملازمین اور بیالیس ہزار سے زائد طلبا کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ پروگرام کے اینکر پرسن نے اقرار کیا ہے کہ وائس چانسلر محترم پروفیسر ڈاکٹر محمد کامران نے انہیں خود بلایا اور بتایا ہے کہ یونیورسٹی میں ہراسمنٹ کے بارے میں زیرو ٹالرنس پالیسی ہے اور اس قسم کے معاملات کے لیے سینٹر فار ہراسمنٹ پروٹیکشن اینڈ ڈسکریمینیشن (CHP&D) بھی قائم کیا گیا ہے۔ جس کی ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر روبینہ بھٹی نے اینکر پرسن کو اپنے آفس میں دعوت دی اور یونیورسٹی میں موجود اینٹی ہراسمنٹ میکانزم کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔ اینکر پرسن کی نشاندہی پر یونیورسٹی نے فوری طور پر ملزم کیخلاف کارروائی کی اور پولیس ایف آئی آر درج کر کے ملزم کی گرفتاری قانون کے مطابق عمل میں لائی۔ اس کے بعد اے ایس اے کی رائے میں اس معاملے کو یہیں ختم ہو جانا چاہیے تھا۔اینکر پرسن لیکچرر، اسسٹنٹ پروفیسر ، ایسوسی ایٹ پروفیسر اور پروفیسر کے کیڈر سے مکمل آگاہ ہونے کے باوجود اپنے پروگرام میں اس ملزم کو لیکچرر اور کبھی پروفیسر بناتے رہے۔ حالانکہ انہیں اچھی طرح علم تھا کہ یہ ملزم ان چاروں کیڈر میں سے نہیں ہے اور وہ جزوقتی طور پر ایک سمیسٹر کے لیے تعینات کیا گیا تھا جسے ہم روز مرہ زبان میں وزیٹنگ فیکلٹی کہتے ہیں۔ اس عمل سے اسلامیہ یونیورسٹی کی ریگولر فیکلٹی کا تقدس پامال ہوا ہے۔ یاد رہے کہ وائس چانسلر ڈاکٹر محمد کامران آج کل مری میں ایک کانفرنس میں موجود ہیں اور حیران کن طور پر اس کانفرنس کی صدارت ایک ایسی یونیورسٹی کے سب کیمپس کے پرو ریکٹر نے کی جس کی اپنی کوئی بھی پروفیشنل ڈگری ایک دہائی سے زائد گزرنے کے باوجود ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کی بنائی گئی پروفیشنل ڈگری کونسل جن میں نیشنل کمپیوٹر ایجوکیشن ایکریڈیشن کونسل ، نیشنل بزنس ایجوکیشن ایکریڈیشن کونسل وغیرہ شامل ہیں، سے منظور شدہ نہ ہیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ مختلف یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر حضرات اپنی یونیورسٹی کے بنیادی فرائض کو بھول کر صرف ایک دعوت نامہ پر کئی کئی دنوں کیلئے مری، اسلام آباد پہنچ جاتے ہیں۔ اور پھر واپسی پر بھاری ٹی اے ڈی اے بھی وصول کرتے ہیں۔
