آج کی تاریخ

عمران خان کی آخرت بارے خوفزدہ

کارجہاں تحریر :میاں غفار

جیل میں ایک نامی گرامی چور اپنے ہانڈی وال قیدیوں کو اپنے حسب نسب اور خاندانی مہارت کے قصے سنا رہا تھا ۔اس فخریہ انداز میں بتایا کہ اس کا بہشتی والد اتنی صفائی سے نقب لگاتا کہ دیوار کے اندرونی طرف کمرے میں سوئے ہوئے گھر والوں کو بھی پتہ نہیں چلتا تھا اور دیوار میں انتا بڑا سوراخ ہو جاتا تھا کہ ابا بہشتی آسانی سے داخل ہو سکے ۔ایک مرتبہ ابے بہشتی نے بہت موٹی اور سخت دیوار میں ساری رات محنت کر کے نقب لگائی اور نور پیر کےوقت رات کے آخری پہر میں جب کمرے میں داخل ہوا تو گھر کا بد بخت اور کمینہ مالک تہجد کی نماز پڑ ھ کر سلام پھیر رہا تھا ۔
ابا بہشتی کا سر کمرے میں اور ٹانگیں ابھی باہر ہی تھیں کہ اس سیاہ کار نے پورے زور سے ڈنڈا مارا تو اسی بابرکت وقت میں ابا بہشت میں جا بسا ۔
حالانگہ ابے بہشتی پر چوری اور ڈاکہ زنی کے کئی مقدمات تھے مگر ہم نے بھرپور انداز میں مقدمہ لڑ ا۔ لاش انکے گھر سے برآمد ہوئی تھی ۔ہم نے ثابت کر دیا کہ ابے کو قتل کیا گیا ہے اور قتل کی اس واردات کو چوری کا رنگ دینے کیلئے دیوار میں بعد میں نقب لگائی گئی ۔تمام گواہوں نے بتایا کہ ابے بہشتی کے خلاف جتنے بھی مقدمات تھے وہ ماضی کا حصہ ہیں اور اس وقوعہ سے دو دن قبل ابا دوستوں کی موجودگی میں مولوی اللہ دتہ کے سامنے توبہ کر چکا تھا۔مولوی اللہ دتے نے بھی گواہی دی اور یوں گواہوں نے ثابت کر دیا کہ یہ چوری یا نقب زنی کی واردات نہیں بلکہ قتل کیا گیا تھا ۔بس پھر گھر کے مالک کو جیل ہوئی اور وہ بھی اس جیل میں سزا بھگت رہا ہے ۔
ہانڈی وال قیدیوں نے پوچھا کہ مولوی اللہ دتہ کیو ں کر راضی ہو ا گواہی کیلئے تو اس نے بتایا کہ ابا بہشتی چور ی ضرور کرتا تھا مگر ہر تہوار پر مولوی صاحب کو کپڑے دیتا تھا ابا نہ تو کسی پیمائش کے مطابق کپڑے لاتاتھا اور نہ ہی دیتے وقت حساب کرتا تھا ۔اس کا ہاتھ بہت ہی کھلا تھا اور وہ سخی تھا۔تب ہی تو تہجد کےوقت فوت ہوا ۔
ساتھی قیدیوں نے مولوی اللہ دتہ کے بارے میں پوچھا کہ اسکی گواہی انتی اہم کیوں ثابت ہوئی کہ سارا کھیل ہی الٹ گیا تو انور پرچی نے کہا کہ میں نے بھی آبائی کاروبار چھوڑ کر پرچی کا کاروبار ابے بہشتی کے حادثے کے بعد ہی کیا اور ہر پرچی مولوی صاحب کے مشورے اور دعا ہی سے لیتا ہو ں۔مگر تم تو اس مرتبہ قتل میں آئے ہو ۔ساتھی قیدیوں نے سوال کیا ۔ہاں ۔بیوی کو قتل کیا ۔ناشکری کرتی تھی ۔میں کہتا تھا کہ ابا بہشتی اتنا کچھ چھوڑ گیا ہے کہ کوئی کام کرنے کی ضرورت نہیں پرچی کا کام تو شوقیہ کرتا ہوں مگر اس میں قناعت نہیں تھی ۔ہر وقت اعتراض ۔ہر گھڑی تنقید ،مدرسے سے چند سال کیا پڑ ھ لئے رزق کی ناشکری کرتی تھی ۔ اپنا کمانے کیلئے سلائی کڑھائی کرتی اور اس رقم سے اپنے لئے علیحدہ سے ہانڈی بناتی ۔مولوی صاحب نے بھی بہت سمجھایا کہ انور بھی اپنے باب کی طرح اللہ کے راستے پر خرچ کر تا ہے مگر وہ مانتی نہیں تھی۔جھگڑا ہوا اور میرے ہاتھوں ماری گئی ۔مولوی صاحب کی گواہی یہاں بھی کا م دکھا گئی اور مجھے عمر قید ہوئی ۔پھانسی سے بچ گیا ۔ساتھیوں نے کہا کہ کمال کا بھلا آدمی ہے یہ مولوی اللہ دتہ ،تو انور پرچی نے مزید کہا کہ دراصل مولوی صاحب ہی نے ابے کو خواب میں بہشت میں دیکھا تھا اور ہمیں بکرا دینے کا کہا ،ہم نے اگلے ہی روز خوشی میں بکرا اور مولوی صاحب کو پورے سال کا راشن دے دیا۔
دوسرے قیدیوں کا مولوی اللہ دتہ بارے اشتیاق بڑھا تو اس نے بتایا کہ آجکل اس کے حالات خراب ہیں ۔گائوں والے دوسرے مسجد میں جانا شروع ہوگئے ہیں اور اب ان کی خدمت بھی نہیں کرتے۔وجہ پوچھنےپر اس نے بتایا کہ مولوی صاحب دم میں بکرا لیتے ہیں اور صلح کرا دیتے تھے ۔لوگوں کے کام کرا دیتے تھے ۔جب سے دوسری مسجد آباد ہوئی اور مولوی صاحب کے حالات خراب ہوئے انہوں نے بھی گا ئوں والوں کیلئے دعا کرنا چھوڑ دی ۔ایک دن انہوں نے گائوں والوں کو واضح طور پر بتادیا کہ مولوی اللہ دتہ تو جنت میں جائے گا مگر تم کم بخت گائوں والے دوزخی ہو ۔مولوی اللہ دتہ تمہارے بچوں کو بڑھاتا ہے تمہارے جنازے ،تمہارے نکاح ،ختم شریف ،بچوں کے کانوں میں آذان اور دم درود کرتا ہے ،تم مسجد کی خدمت نہیں کرتے ۔بچوں کو دنیاوی تعلیم دیتے رہتے ہو۔تم نے اپنا ٹھکانہ دوزخ میں بنا لیا ہے ۔مولوی صاحب نے مزید بتایا کہ جنت اور دوزخ کے درمیان ایک کھڑکی ہوگی جو کبھی کبھار کھلے گی تو تم گائوں والے اپنی آنکھوں سے دیکھ لینا کہ مولوی اللہ دتہ جنت میں دودھ کی نہرکے کنارے حوروں کے جھرمٹ میں مزے سے بیٹھاہو گا ۔
مولوی اللہ دتہ اور انور پرچی کے عقائد اور خیالات کا مریم نواز کے اس بیان سے کوئی تعلق نہیں جس میں انہوں نے اس خدشے کا عمران خان کے بارے میں اظہار کیا تھا کہ، اس شخص کی آخرت بارے خوفزدہ ہوں،،

شیئر کریں

:مزید خبریں