آج کی تاریخ

عدالتی نقول فیس 10 روپے سے 500 مقرر، تخت لاہور کا انکار، ملتان، بہاولپور، پنڈی بار کا اقرار

ملتان (قوم ریسرچ سیل) حکومت پنجاب کی طرف سے فنانس ایکٹ میں کی جانے والی ترمیم کے نتیجے میں لاہور ہائی کورٹ کے احکامات کی مصدقہ کاپی کے حصول کیلئے نقل فارم پر چسپاں کی جانے والی ٹکٹ کی قیمت 10 روپے سے بڑھا کر 500 روپے کر دی گئی ہے اور حیران کن طور پر یہ فیصلہ اور لاہور ہائی کورٹ کی پرنسپل سیٹ یعنی لاہور بینچ کے زیر انتظام اضلاع پر لاگو نہیں ہو سکا جبکہ ملتان، راولپنڈی اور بہاولپور میں اس پر عمل درآمد شروع ہو چکا ہے جس کے بعد اب لاہور ہائی کورٹ کی پرنسپل سیٹ یعنی لاہور سے کسی بھی عدالتی حکم کی نقل آج بھی 10 روپے کے نقل فارم پر حاصل کی جا سکتی ہے جبکہ ملتان ،بہاولپور اور راولپنڈی میں یہی نقل 500 روپے کی ٹکٹ 50 بلیک پر 550 روپے میں ملتی ہے جبکہ 200 روپے فوٹو کاپیوں کی مد میں جمع کروانا پڑتا ہے۔ اس طرح یہ نقل750 روپے میں پڑ جاتی ہے اس میں منشی کے اخراجات شامل نہیں ہیں۔ عدالتی تاریخ میں یہ حیران کن تفریق پہلی بارپنجاب ہی میں دیکھنے میں آئی ہے۔ حکومت پنجاب نے فنانس ایکٹ میں ترمیم کرکے کورٹ آرڈر کے نقل فارم کی قیمت 10 روپےکے بجائے 500 روپے کر دی تو ملتان ہائی کورٹ کے ایک سینئر وکیل ریاض گیلانی نے اپنے چند ساتھی وکلا کے ہمراہ لاہور ہائی کورٹ ملتان بینچ میں احتجاج ریکارڈ کرانے کے لیے ہڑتال شروع کر دی۔ریاض گیلانی کے احتجاج کا اعلیٰ سطح پر نوٹس لیا گیا اور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے پرنسپل سیٹ لاہور سمیت ملتان، بہاولپور اور راولپنڈی بینچ سے متعلقہ بار کے عہدے داروں کو میٹنگ کے لیے لاہور بلوایا تاکہ مشترکہ لائحہ عمل اختیار کیا جا سکے۔ اس میٹنگ کے دوران بہاولپور بار کے نمائندے نے فوری طور پر حکومت پنجاب کے فیصلے کو تسلیم کرتے ہوئے چیف جسٹس کو بتا دیا کہ 10 روپے کےبجائے عدالتی احکامات کی نقل فارم کے لیے حکومت پنجاب نے جو 500 روپے قیمت مقرر کی ہے انہیں اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ اس کے بعد ملتان بار اور راولپنڈی بار کے عہدے داروں نے بھی اسے بلا چوںچرا ںتسلیم کر لیا مگر حیران کن طور پر پرنسپل سیٹ یعنی لاہور بار کے صدر نے اعتراض کیا اور کہا کہ اتنا زیادہ اضافہ انہیں کسی بھی طور پر منظور نہیں اور وہ اسے تسلیم نہیں کرتے۔ لاہور ہائی کورٹ پرنسپل سیٹ یعنی لاہور بار کے صدر کی طرف سے دو ٹوک اور واضح موقف اختیار کیے جانے کے بعد چیف جسٹس نے یہ فیصلہ کیا کہ فی الحال حکومت پنجاب کا یہ فیصلہ ملتان، بہاولپور اور راولپنڈی بینچ پر لاگو کر دیا جاتا ہے جبکہ لاہور ہائی کورٹ کے زیر انتظام اضلاع کے لیے ان پر عمل درآمد کا معاملہ فی الحال ملتوی کیا جاتا ہے اور لاہور ہائی کورٹ بار کے عہدے داروں کو بعد میں افہام و تفہیم سے قائل کر لیا جائے گا۔ اس اعلان کے بعد اب صورتحال یہ ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے احکامات کی مصدقہ نقول کے لیے ملتان اور بہاولپور کے علاوہ راولپنڈی بینچ سے متعلقہ تمام مقدمات کی نقول پر 750 روپے لیے جا رہے ہیں جبکہ لاہور ہائی کورٹ کی پرنسپل سیٹ یعنی لاہور سے متعلقہ فیصلوں اور عدالتی احکامات کی نقول کے لیے آج بھی پرانے ریٹس پر ہی نقل فارم کی دستیابی چل رہی ہے۔ اس تضاد کے بعد اب ملتان ،بہاولپور اور راولپنڈی کے لاہور ہائی کورٹ کے ڈویژنل بینچوں کی طرف سے جاری ہونے والے کسی بھی قسم کے احکامات کی نقول کے لیے سائلین کو 1500 روپے سے 2000 روپیہ منشی حضرات کو دینا پڑ رہے ہیں جس میں منشی کی فیس اور دیگر اخراجات بھی شامل ہوتے ہیں جب کہ لاہور ہائی کورٹ کی پرنسپل سیٹ کے فیصلوں کی نقول آج بھی چار پانچ سو روپے میں مل جاتی ہیں کیونکہ اس پر نقل فارم ٹکٹ آج بھی 10 روپے چل رہی ہے۔ اس صورتحال کے حوالے سے ملتان بار کے وکلا نے روزنامہ قوم کو بتایا کہ تخت لاہور کے وکلا نے جرات دکھائی اور اپنا حق لے لیا جبکہ ملتان بہاولپور اور راولپنڈی بار کے عہدے داروں نے اپنے کلائنٹس اور خطے کا دفاع نہ کیا۔بہاولپور بار کے ایک سابق عہدیدار نے روزنامہ قوم سے گفتگو کرتے ہوئے اس حیرت کا اظہار کیا کہ جب پرنسپل سیٹ یعنی لاہور ہائی کورٹ بار کے صدر نے اصولی موقف اپنا لیا تھا تو پھر ان کے موقف کی تائید بہاولپور، ملتان اور راولپنڈی بینچ سے متعلقہ بار عہد داروں نے کیوں نہ کی اور اپنے خطےکے عوام کا خیال کیوں نہ رکھا۔ اس کے بعدہائی کورٹ کی پرنسپل سیٹ کے علاوہ دیگر تینوں بینچوں میں حکومت پنجاب کے ایک ہی حکم نامے کو نافذ کر دیا گیا پنجاب کے ایک ہی حکم نامے کو الگ انداز میں نافذ کر دیا گیا۔

شیئر کریں

:مزید خبریں