ملتان (رپورٹ:منصور عباس) مون سون بارشیں اندرون شہر میں جھولتی پرانی عمارتیں خطرے کا سائرن بجانے لگی،کراچی لیاری جیسے سانحےکا ڈر ہے۔ضلعی حکومت کی مجرمانہ غفلت کےباعث 359 مخدوش عمارتیں انسانی جانوں کے لیے خطرہ، نوٹسز کے باوجود عملی اقدامات ندارد، ان عمارتوں میں سے کوئی ایک گھربھی گرا، تو صرف اس گھر کا نہیں بلکہ پورے نظام کا جنازہ نکلے گا۔تاریخی شہر ملتان کے دل میں واقع اندرون شہر کے علاقے اس وقت موت کے سائے میں جی رہے ہیں جہاں 359 مخدوش عمارتیں شہریوں کی زندگیوں کو شدید خطرے سے دوچار کر چکی ہیں۔ محکمہ بلڈنگ اور ضلعی حکومت کی رپورٹ کے مطابق ان میں سے 227 عمارتیں خطرناک ترین قرار دی جا چکی ہیں جو کسی بھی وقت زمیں بوس ہو سکتی ہیں۔افسوسناک امر یہ ہے کہ ضلعی حکومت کی جانب سے ان عمارتوں کے مالکان کو اگرچہ 2023 میں نوٹسز تو جاری کیے گئےتاحال ان پر کوئی مؤثر عمل درآمد نہ ہو سکا۔ بیشتر عمارتوں میں خاندان تاحال مقیم ہیں، جو غربت اور متبادل رہائش کے فقدان کے باعث اپنی جانوں کو خطرے میں ڈالنے پر مجبور ہیں۔علاقہ مکینوں عمران خان،محمد طارق،محمود قریشی،عبدالاحد،سعید احمداور سعید شیخ نے کہا کا کہنا ہے کہ ہم نوٹسز کے بعد بھی اسی جگہ رہنے پر مجبور ہیں، ہم کہاں جائیں؟ کرایہ دینے کے لیے پیسے نہیں، مکان خالی کریں تو بچوں کو کھانا کہاں سے دیں؟یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب دینے سے ضلعی حکومت مکمل طور پر قاصر ہے۔شہریوں کا کہنا ہے کہ تنگ گلیاں، گنجان آبادی، اور ریسکیو کے لیے ناکافی راستے ایک بڑے سانحے کی پیش گوئی کر رہے ہیں۔یہ المیہ اس وقت مجرمانہ غفلت میں تبدیل ہو جاتا ہے جب ضلعی حکومت صرف نوٹسز دے کر اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو جاتی ہےجبکہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ متاثرہ شہریوں کے لیے نہ تو کوئی متبادل منصوبہ بندی کی گئی ہے، نہ ہی کسی بھی طرح کا ہنگامی ریلیف سسٹم موجود ہے۔عوام کا مطالبہ ہے کہ حکومت فوری طور پر ان مخدوش عمارتوں کو خالی کروائے، متاثرہ خاندانوں کو متبادل رہائش فراہم کرے، اور آئندہ کے لیے پائیدار پالیسی مرتب کرے تاکہ انسانی جانیں ضائع ہونے سے بچ سکیں۔ اگر اب بھی وقت پر فیصلہ نہ لیا گیا تو یہ صرف ایک حادثہ نہیں ہوگا، بلکہ حکومتی ناکامی کی بدترین مثال بنے گا۔یادرہےکہ چندروزقبل کراچی کےعلاقےلیاری میں پانچ منزلہ بوسیدہ عمارت زمیں بوس ہونےسے27افرادلقمہ اجل بن گئےتھے۔
