آج کی تاریخ

پنجاب : جعلی سکول، فرضی انرولمنٹ، عالمی بینک نے فنڈنگ روکنے کی دھمکی دیدی

ملتان (عامر حسینی ) جعلی اسکول اور فرضی انرولمنٹ: پنجاب کے تعلیمی ڈیٹامیں سنگین دھوکہ دہی نے عالمی اداروں کا اعتماد ہلا دیا۔پنجاب کے سرکاری تعلیمی نظام میں سامنے آنے والے ڈیٹا فراڈ سکینڈل نے بین الاقوامی ڈونرز میں گہری تشویش پیدا کر دی ہے۔ عالمی بینک اور دیگر مالیاتی اداروں نے واضح انتباہ دیا ہے کہ اگر پنجاب حکومت اس بدعنوانی کے جڑ سے خاتمے کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات نہ کرے تو تعلیمی امداد معطل ہو سکتی ہے۔اس سکینڈل کا مرکز پنجاب اسکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی گزشتہ سال کی کارکردگی رپورٹ ہے جس میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ پنجاب میں جعلی سکول اور فرضی انرولمنٹ کا وجود تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ تاہم، عالمی بینک کی قیادت میں ڈونرز نے ان دعوؤں کو چیلنج کرتے ہوئے کہا ہے کہ رپورٹ میں شامل اعداد و شمار زمینی حقائق سے متصادم ہیں اور تعلیم کے شعبے کی کارکردگی کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے۔ورلڈ بینک کے ایک ذریعے کے مطابق یہ خدشات کوئی نئی بات نہیں۔ “پنجاب میں جعلی اسکولوں کے حوالے سے تشویش پہلی بار 2016 میں Wilson Center کے Asia Program کی رپورٹ ‘Pakistan’s Education Crisis: The Real Story’ میں سامنے آئی تھی، جسے تعلیمی ماہر نادیہ نبیوالا نے مرتب کیا تھا۔” ذریعے نے بتایا، “اسی رپورٹ میں پہلی مرتبہ پنجاب حکومت کے ان دعوؤں پر سوال اٹھایا گیا تھا کہ جعلی اسکولوں اور انرولمنٹ کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ تب سے عالمی بینک اس معاملے پر نظر رکھے ہوئے ہے، اور گزشتہ نو برس سے ہم پنجاب کے حکام پر زور دے رہے تھے کہ وہ اس دھوکہ دہی کا کھوج لگائیں۔”اس رپورٹر کو پنجاب حکومت کے اندر باوثوق زرایع کے مطابق، ترقیاتی شراکت داروں نے پنجاب حکومت پر جان بوجھ کر حد سے زیادہ مبالغہ آرائی سے بھرپور اعداد و شمار جمع کرانے کا الزام لگایا ہے۔ عالمی بینک کے ایک اور اہلکار نے کہا، “یہ محض شماریاتی غلطی نہیں بلکہ دانستہ گمراہ کن بیانیہ تھا، جس کا مقصد ڈونر اہداف کو پورا کر کے مالی امداد کو جاری رکھنا تھا۔”صورتحال کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب نے نادرا، ڈیجیٹل انجینئرز اور منصوبہ بندی و ترقیاتی محکمے پر مشتمل ایک ہنگامی آڈٹ ٹیم تشکیل دی۔ اس مشترکہ تحقیقاتی عمل کے قریبی ذرائع کے مطابق، جو نتائج سامنے آئے وہ “پیمانے اور شدت میں ناقابل یقین حد تک تباہ کن” ہیں۔ایک سینئر عہدیدار نے بتایا، “متعدد اسکول صرف کاغذی وجود رکھتے ہیں۔ نہ عمارتیں ہیں، نہ طلبہ، نہ اساتذہ، اور نہ ہی تدریسی سرگرمیاں۔” ان جعلی اسکولوں کے لیے مکمل عملے کی تقرری، تنخواہوں کی ادائیگی، اور انرولمنٹ کے ریکارڈز موجود تھے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک ہی طالب علم کو دو سے چار مختلف اسکولوں میں انرول ظاہر کیا گیا تاکہ انرولمنٹ کے اعداد و شمار بڑھائے جا سکیں اور اضافی فنڈز حاصل کیے جا سکیں۔ ایک چونکا دینے والے واقعے میں، ایک ہی طالب علم تین مختلف اضلاع کے اسکولوں میں بیک وقت درج تھا — وہ بھی ایک ہی قومی شناختی نمبر کے ساتھ۔اساتذہ کا ڈیٹا بھی اسی طرح بگاڑا گیا۔ “کئی اساتذہ جو بیرون ملک جا چکے تھے، بعض ریٹائر ہو چکے تھے، اور کچھ ایسے بھی تھے جن کی تقرری ہی نہیں ہوئی تھی — ان سب کے نام حاضری رجسٹرز میں موجود تھے اور حکومت سے تنخواہیں بھی وصول کر رہے تھے،” منصوبہ بندی محکمہ کے ایک افسر نے تصدیق کی۔ڈونرز نے سخت وارننگ جاری کی ہے: یا تو ڈیٹا کو شفاف بنایا جائے، یا پھر تمام تعلیمی امداد معطل سمجھی جائے۔ پنجاب کو ڈونر اداروں کی طرف سے ہر سال کروڑوں ڈالر کی مالی امداد ملتی ہے، جو کارکردگی، شفافیت، اور نتائج سے مشروط ہوتی ہے۔ ڈیٹا میں رد و بدل ان تمام بنیادوں کو تباہ کر دیتا ہے۔حکومت پنجاب نے اس بحران سے نمٹنے کے لیے اقدامات شروع کر دیے ہیں جن میں شامل ہیں: جی پی ایس کی بنیاد پر اسکولوں کی جیو ٹیگنگ، طلبہ اور اساتذہ کی بائیومیٹرک تصدیق، اور تمام نئی انرولمنٹ کو نادرا کے قومی شناختی ریکارڈ سے منسلک کرنا تاکہ دہری انرولمنٹ کا خاتمہ کیا جا سکے۔ ساتھ ہی ایک فہرست بھی تیار کی جا رہی ہے جس میں جعلی اسکولوں کو بند کرنے اور ذمہ دار افراد کے خلاف کارروائی پر غور ہو رہا ہے۔تاہم، ماہرین تعلیم اور سول سوسائٹی تنظیمیں حکومت کے ان اقدامات سے مطمئن نہیں۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے محقق احمد رضا نے کہا، “یہ محض ایک اسکینڈل نہیں، بلکہ عوامی اعتماد کے ساتھ نظامی غداری ہے۔ برسوں تک جعلی اعداد و شمار سے سیاسی فائدہ اور مالی منفعت حاصل کی گئی، اور نتیجہ یہ ہے کہ آج ہم ایک ٹوٹے ہوئے نظام، ضائع شدہ وسائل اور لاکھوں بچوں کے برباد مستقبل کے سامنے کھڑے ہیں۔”وزیراعلیٰ ہاؤس کے ایک سینئر افسر نے نجی طور پر اعتراف کیا کہ یہ محض غفلت کا معاملہ نہیں بلکہ ایک’’منظم سازش‘‘ تھی۔ ان کا کہنا تھا، “درمیانی درجے کے افسران، سکولوں کے منتظمین، اور کچھ اعلیٰ حکام تک — سب نے اس ڈیٹا میں جعلسازی میں کردار ادا کیا۔ یہ ایک ایسا کارڈز کا محل ہے جو اب بکھرنے کے قریب ہے۔”جوں جوں تحقیقات آگے بڑھ رہی ہیں، تجزیہ کار خبردار کر رہے ہیں کہ یہ بحران صرف ڈونرز کے اعتماد کا نقصان نہیں، بلکہ مستقبل کی نسلوں کے مستقبل کو بھی داؤ پر لگا چکا ہے۔ جیسا کہ احمد رضا نے کہا، “جب جعلی رپورٹس تیار کی جا رہی تھیں، تب حقیقی بچے یا تو خستہ حال کلاس رومز میں بیٹھے تھے — یا بالکل بھی نہیں تھے۔”یہ معاملہ صرف کرپشن کا نہیںبلکہ ایک ایسے طرزِ حکمرانی کی مذمت ہے جو کارکردگی کی اصل بنیاد کے بجائے ظاہری نمبروں پر توجہ دیتا ہے۔ جب تک اس جعلسازی کی مشینری کو ختم نہیں کیا جاتا، یہ نظام اپنے ہی مستقبل کو کھاتا رہے گا۔

شیئر کریں

:مزید خبریں