بہاولپور (افتخار عارف سے) شجاع آباد میںبلک پرچیز ٹکٹ کے سرکاری ریکارڈ میں ٹیمپرنگ، دھوکہ دہی اور مالی بدعنوانی سے متعلق رپورٹس کی بنیاد پر درج مقدمے کو ریلوے پولیس کی ملی بھگت سے دبایا جانے لگا ہے۔ ذرائع کے مطابق، ڈپٹی ڈی ایس شاہد رضا کو ایک بڑی ڈیل کے بدلے مقدمے سے نکالنے کی کوششیں کی گئیں۔ریلوے ڈی ایس پی محمد صدیق اور ایس ایچ او عمران جتوئی پر الزام ہے کہ انہوں نے بھاری رشوت کے عوض صرف 11 دنوں میں مرکزی ملزم شاہد رضا کو مقدمے سے بے گناہ قرار دے دیا۔ 16 مئی کو شاہد رضا کی خصوصی عدالت ملتان سے ضمانت کرائی گئی، جس کی مکمل درخواست موجود تھی۔ تاہم 27 مئی کو یہ ضمانت صرف اس وجہ سے واپس لے لی گئی کہ ریلوے پولیس کی سہولت کاری سے مقدمہ نمبر 9/25 میں نامزد شاہد رضا کو کلین چٹ دے دی گئی تھی۔حالانکہ شاہد رضا مقدمے میں براہِ راست ملوث تھا، ریلوے پولیس نے اعلیٰ افسران کو مقدمے کی پیش رفت سے آگاہ ہی نہیں کیا۔ شاہد رضا اب بھی اپنی سیٹ پر براجمان ہے اور اختیارات استعمال کرتے ہوئے معاملے کو دبا رہا ہے، جبکہ سارا ملبہ ماتحت ملازمین پر ڈال رہا ہے۔جعلی ٹکٹوں کے اسکینڈل کو اجاگر کرنے والے کیس میں شاہد رضا کو بے گناہ قرار دینے کے حوالے سے ڈی ایس پی محمد صدیق مسلسل مؤقف بدلتے رہے۔ پہلے تو انہوں نے دعویٰ کیا کہ شاہد رضا نے کوئی ضمانت نہیں کروائی، لیکن جب روزنامہ قوم کے کرائم سیل نے 16 مئی کو کرائی جانے والی ضمانت کے کاغذات، جن پر شاہد رضا کی تصاویر اور دستخط بھی موجود تھے، ان کے سامنے رکھے، تو وہ آئیں بائیں شائیں کرنے لگے اور یہ کہہ کر بات ختم کی میں جو مرضی ضمانت کروا لے، میں اس کا ذمہ دار نہیں ہوں۔”اس معاملے پر ایس ایچ او ریلوے بہاولپور عمران جتوئی کا کہنا ہے کہ اعلیٰ افسران کے حکم پر ڈپٹی ڈی ایس بے گناہ ہوے ہیں۔حیران کن بات یہ ہے کہ جب روزنامہ قوم کے کرائم سیل نے مقدمہ نمبر 9/25 کے مدعی کمرشل انسپکٹر غلام قادر سے رابطہ کیا، جنہوں نے سورس رپورٹس کی بنیاد پر یہ مقدمہ درج کروایا تھا، تو انہوں نے کہا کہ مجھے شاہد رضا کی نامزدگی کے بارے میں نہ کسی نے آگاہ کیا اور نہ ہی مجھے اس کا علم ہے”۔ یہ ریلوے پولیس اور جعلی ٹکٹ اسکینڈل میں ملوث افراد کے گٹھ جوڑ کا کھلا ثبوت ہے۔مدعی مقدمہ کو مقدمے کی مکمل تفصیلات سے لاعلم رکھنا، اور کمزور تفتیش سے ملزمان کو فائدہ پہنچانا، انصاف کے عمل پر سنگین سوالات اٹھاتا ہے۔ کئی ملوث افراد آج بھی قانون کی گرفت سے باہر ہیں۔یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ 18 جون 2025 کو ایف آئی اے اسلام آباد کے ایک سیکشن آفیسر نے ایک حکم نامہ جاری کیا، جس کے تحت 1979 کی وہ پالیسی واپس لے لی گئی جس میں ریلوے ملازمین کی کرپشن کے کیسز ریلوے پولیس کے دائرہ اختیار میں تھے۔ اب یہ کیسز ایف آئی اے کو منتقل کیے جا سکتے ہیں۔قانونی ماہرین اور شہریوں نے اس میگا اسکینڈل کی تفتیش فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (FIA) سے کروانے کا مطالبہ کیا ہے، جبکہ جعلی ٹکٹوں سمیت ریلوے میں جاری وسیع پیمانے پر کرپشن کے خلاف، شہریوں نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی میں باقاعدہ تحریری شکایت جمع کرانے کا بھی فیصلہ کر لیا ہے۔
