آج کی تاریخ

مگر شیطان تو بند ہے

عام فہم:سمعیہ فیض سیال

مسلمان گھرانے میں پیدا ہونے والے ہر بچے کو انتہائی کمر عمری میں ہی اس بات کا علم ہوتا ہے اور یہ بات انتہائی پختہ یقین کے ساتھ اس کے ذہن کے پردوں پر چسپاں ہوتی ہے کہ ماہ رمضان کے مقدس اور بابرکت مہینے میں اللہ تعالیٰ شیطان کو بند کردیتا ہے۔ تا کہ قرآن مجید کے نزول کے اس بابرکت مہینے میں ہر مسلمان رب تعالیٰ کی ڈھیروں رحمتوں اور نعمتوں سے مستفید ہوتے ہولے اپنی آخرت کےلئے نیکیاں کما سکے کہ جہاں مال ودولت ، خاندانی شجرہ،حشمت، خونی رشتے کوئی بھی کام نہ آسکے گا۔ مختلف مذاہت کے حامل مختلف دنیا کے ممالک میں مذہبی تہوار سے مہینہ پہلے اشیائے خوردونوش، ملبوسات اور دیگر اشیائے ضروریہ پر نرخوں میں خاطر خواہ کمی کر دی جاتی ہے۔ تاکہ کوئی شخص بھی مذہبی تہوار پر خوشیوں سے محروم نہ رہے۔ حتیٰ کہ وہاں مقیم غیر مسلم کمیونٹی کےلئے غیر ملکی سپر سٹور مالکان نرخوں میں خاطر خواہ کمی کردیتے ہیں۔ حالانکہ ان میں سے بیشتر کا دور دور تک مذہب سے کوئی تعلق بھی نہیں ہوتا۔ ہماری ناقص عقل میں ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ ان کی اکثریت شیطان کے چیلے اور پیروکار ہیں ۔ مگر شیطان بند ہے……
مگر ٹھہریئے……اخبارات اور سوشل میڈیا پر رمضان کے پہلے عشرے میں ایک خبر تصویروں کے ساتھ ہی گردش کرتی رہی ہے کہ خیر پختونخواہ کا رہائشی دیا سنگھ اپنے کریانہ سٹور پر ماہ رمضان میں ہول سیل سے انتہائی کم قیمت میں اشیائے خوردوش فروخت کرتا چلا آرہا تھا کہ اس مرتبہ بھی اس نے اپنی یہ روایت برقرار رکھی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ ماہ رمضان میں اسے دکان کا کرایہ بھی اپنی ہی جیب سے دینا پڑتا ہے۔ مگر مسلمان بھائیوں اور دیگر افراد کےلئے جتنی آسانی وہ مہیا کر سکتا ہے وہ کرتا ہے۔ مگر اسے بھی گزشتہ ہفتے بے دردی سے ماہ رمضان میں ہی قتل کر دیا گیا ہے۔
ماہ رمضان کے پہلے عشرے ہی میں سینٹری ورکر کاشف مسیح کو بھی قتل کردیا جاتا ہے۔
اس مہینے میں ٹھٹھہ سندھ میں پپو نریش کو ہاتھ پائوں باندھ کر قتل کردیا جاتا ہے اور پولیس کے مطابق اس ہاتھ بندھی لاش نے خود کشی کی ہے۔ ملزم بھی نامزد ہیں۔ سندھ اور بلوچستان کے انتہائی دور افتادہ علاقوں میں فری آئی کیمپس لگا کر انسانیت کی خدمت کرنے والے سرجن بیربل کو جو کہ کراچی کے رہائشی تھے۔ انہیں بھی اس مہینے قتل کر دیا گیا ہے۔ مگر سوچنے کی بات تو یہی ہے کہ شیطان تو بند ہے…….
حکومت کی طرف سے مہنگائی کی ستائی عوام کو مفت آٹا کی صورت ریلیف دیا گیا ہے۔ مگر وہاں جو بد نظمی ہوئی اور لوٹی کے با عزت لقمے کا خواب دیکھتے کئی افراد لقمہ اجل بن گئے۔ خیر اس کو چھوڑیں کہ انہیں اب کس نے ہمارے ملک میں یاد رکھتا ہے؟
مگر ان سینٹرز میں غربت کے پسے اور اپنے بچوں کےلئے ماہ رمضان میں روٹی کا بندوبست کرنے والے کچھ عناصر نے وہاں موجود خواتین کو بلا عمر کی تخصیص کے غلط حرکات اس قدر ہراساں کیا کہ خدا کی پناہ۔ کئی خواتین جو کہ دور دراز علاقوں سے ٓاٹا لینے آئی ہوئیں تھیں وہ یہ صورتحال دیکھ کر قطاروں سے نکل کر واپس اپنے گھروں کو چلی گئیں کہ ’’رزق کا وعدہ اللہ کا ہے‘‘ ان کوہراساں کرنےوالے زیادہ مسلمان ہی تھے پھر جناب آٹا تقسیم کے دوران اصل کھیل تو اب شروع ہوا ہے۔ ایک مرتبہ آٹا کا ایک تھیلہ لیکر دوبارہ دو تھیلے لینے کےلئے جب ان سینٹرز کا عوام نے رخ کیا ہے تو معلوم ہوا ہے کہ وہ تو تینوں تھیلے وصول کر چکے ہیں۔ دیہاتوں کے ساتھ ساتھ شہروں کے سینٹرز پر بھی ایسا ہورہاہے۔ لیکن ان سینٹرز کے منتظم سٹاف میں سے اکثر کے گھروں میں15سے20 تھیلے کہاں سے آگئے وہ بھی مفت آٹے کی نشانی یعنی سبز رنگ والے؟
مگر چھوڑیں……شیطان تو بند ہے۔
ماہ رمضان کے قریب آتے ہی حکومت’’ رمضان بازار‘‘ کا اہتمام کرتی ہے۔ ان بازاروںمیں مختلف سٹالز منتظمین کے جاننے والے کے ہوتے ہیں۔ خیر اسے بھی چھوڑیں۔
لیکن ان سٹالز پر سستی اشیا کے نام پر جو غیر معیاری مصنوعات خاص طور پر گھی، کوکنگ آئل یا دالین فروخت ہو رہی ہیں کیا ان بازاروں کا وزٹ کر کے سب اچھا کی رپورٹ دینے والوں کے گھروں میں بھی ایسی ہی ضروریات زندگی استعمال ہوتی ہیں؟
کئی سالوں تک سرکاری سطح پر افطار کا انتظام ہوتا رہا۔ جو کہ مسافروں اور غربا کےلئے ہوتا تھا۔ مگر بغیر تشہیر اور بغیر کسی عام شخص تک یہ اطلاع پہنچائے یہ افطار ڈنر سمجھتے رہے اور کون مستفید ہوتا رہا اور مسافر اور غربا کیا کرتے رہے ۔
چھوڑیں جناب
کیونکہ شیطان تب بھی ماہ رمضان میں بند تھا۔ شیطان جب اب بھی بند ہے۔ ماہ رمضان کا آغاز ہوتے ہی پھلوں اور سبزیوں کے ریٹ جو پہلے ہی ہوشربا تھے۔ دوگنا سے بھی زیادہ ہوگئے ہیں ۔دوران ماہ رمضان میں ہی چینی کی قیمت میں45 روپے فی کلو اضافہ کردیا گیا ہے۔ کیا یہ غریب شخص سے افطاری میں میٹھا پانی چھیننے کی کوشش نہیں؟ ماہ رمضان شروع ہونے سے دو دن قبل650 روپے والا آٹے کا تھیلہ1150 کا کردیا گیا۔ روٹی اور کپڑا دونوں کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ پیٹ کا دوزخ بھرنا اور تن ڈھانپنا کیا۔ ایک دیہاڑی دار مزدور کےلئے امتحان نہیں؟ کہ جس کی ضروری نہیں کہ روز دیہاڑی لگے۔ ریڑھیوں پر پھل اور سبزیاں لگانے والوں کے علاوہ ریڑھیوں پر کھانے پینے کی اشیا فروخت کرنے والوں کی اکثریت یا تو بےروز گار ہو جاتی ہے یا افطار کے وقت ہی کچھ کاروبار کر سکتی ہے۔
مگر بھوک تو پھر بھی ان کے ساتھ ہے چاہے کام ہویا نہ ہو اور عید پر بچوں کو کپڑے دلانا ہر ماں باپ کا پہلا ارمان ہوتا ہے۔ مگر ہرضرورت مند مانگنے والا بھی نہیں ہوتا کہ عزت نفس خاندانی لوگوں کا ورثہ اور اثاثہ ہوتی ہے۔
ہمارے ملک میں کئی فیکٹریوں کے مالکان کی بیوائیں ایک اندھیرے کمرے پر مشتمل گھر میں زندگی کی آخری سانسیں ہمسائیوں کے رم وکرم پر گزار کر دنیا سے رخصت ہو جاتی ہیں۔ جہاں کوئی ’’نیشنل سپورٹ پروگرام‘‘ کی کوئی سپورٹ نہیں پہنچتی جبکہ ’’سپورٹ پروگرام‘‘ کی تقسیم کے ہر سینٹرز پر کئی خواتین کاروں سے اتر کر امداد کی رقم لیکر واپس گاڑی میں بیٹھ کر چلی جاتی ہیں۔
لیکن شیطان تو ماہ رمضان ہے اور بند ہے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں