آج کی تاریخ

وہ ظلم جس کا میں عینی شاہد ہوں مگر دل نہیں مانتا (1)

عارفانہ :عارف حسین

بیٹےکے لئے رشتے سے انکارپر چچا نے سگی بھانجی کو جنات سے بے آبرو کراکر کئی سال مسلسل اذیت دینے کے بعد قتل کروا دیا۔ شدت کی گرمی کی ایک دوپہر میں اپنے اخبار کے دفتر آکر خبریں لکھنا شروع ہوا ہی تھا کہ فون کی گھنٹی بجی۔ میں نے رسیور اٹھایا تو دفتر کے استقبالیہ سے عمران نے کہا عارف صاحب باہر کافی دیر سے کوئی برقعے میں ملبوس خاتون آپ کا انتظار کر ہی ہے ۔ وہ کرائم رپورٹر کو ہی ملنا چاہتی ہے۔ میاں صاحب دفتر شام کو آئیں گے ورنہ اس خاتون کو میں ان کے پاس بھجوا دیتا بہر حال میں نے اسے کہا کہ اس خاتون کو خود میرے کمرے میں لے آؤ۔ یہ کہہ کر میں دوبارہ خبر لکھنے میں مست ہو گیا نیوز روم سے دو مرتبہ پیغام آ چکا تھا کہ پہلی ڈاک کیلئے خبریں بھیج دیں وقت نہیں ہے ۔اسی رولے میں خاتون کا خیال ذہن سے نکل گیا اور وہ بیچاری کمرے کے دروازے میں کھڑی میرا انتظار کرتی رہی کہ کب میں اسے اندر آنے کو کہوں جیسے ہی اس خاتون نے میری توجہ اپنی طرف کروانے کیلئے ہلکا سا کھانسا تو میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو ایک نقاب پوش پتلی دبلی سیاہ برقعے میں لپیٹی ہوئی ایک عورت کھڑی تھی۔ میں نے اسے اپنے سامنے والی کرسی پر بیٹھنے کو کہا وہ خوفزدہ اور سہمی ہوئی میرے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گئی ۔اس کے پاؤں مٹی اور گرد میں لپیٹے ہوئے تھے جس پر پتہ چل گیا کہ کافی پیدل چل کر آئی ہے ۔ وہ شدید پریشان اور کانپ رہی تھی میں نےپانی گلاس منگوا کر اسے دیا تو اس کی آنکھوں سے زاروقطار آنسو بہنہ شروع ہو گئے۔ اس لڑکی نے سوال کیا کہ کیا آپ میری مدد کر سکتے ہیں ۔
جب میں نے اسے پوچھا کس طرح تو لڑکی نے کہا کہ آپ کو مجھ سے وعدہ کرنا ہوگا کہ آپ میری کہانی سن کر اسےاپنے اخبار میں شائع نہیں کریں گے اور صرف بس میری اللہ کے واسطے میری مدد کریں گے ۔پہلے تو میں تھوڑی دیر خاموش رہا پھر میں نے اس لڑکی کی معصومیت کو دیکھ ر اس لڑکی سے وعدہ کر لیا ہاں میں آپ کی مدد ضرور کروں گا اگر تم میرے ساتھ کوئی ڈرامہ نہیں کرو گی ۔میری بات سن کر اس لڑکی نے میرے ساتھ کوئی مزید بات کرنے کی بجائے مجھے اپنے گھر آنے کو کہا لڑکی کی اس بات کو سن کر میں سوچ میں پڑھ گیا اور میں نے لڑکی سے اس کے گھر کا پتہ لے کر اپنے پاس رکھ لیا اور ایک دو دن میں اس کے گھر آنے کا وعدہ کرلیا میرا اتنا کہنا ہی تھا کہ لڑکی کے چہرے پر تھوڑی سکون کی چمک نظر آئی ۔پھر میں نے اپنی جیب سے ایک سو کا نوٹ نکال کر اس لڑکی کو دیا کہ اس وقت سو روپیہ کافی ہوتا تھا اور کہا گھر رکشہ میں بیٹھ کر جانا پیدل نہیں میری اس حرکت سے اس لڑکی کا چہرہ پھر آنسوئوں سے بھر گیا لیکن میرے اصرار پر اس نے سو کا نوٹ پکڑ لیا اور چلی گئی۔ جب میں گھر گیا تو ساری رات اسی لڑکی کے بارے سوچتا رہا کہ آخر کیوں اس نے مجھے بغیر جان پہچان اپنے گھر آنے کی دعوت دی۔ طرح طرح کے وسوسے دل میں جنم لیتے رہے۔ کام کی مصروفیت کی وجہ سے اس لڑکی سے کیا وعدہ ذہن سے نکل گیا اور اس بات کو تقریباً ایک ہفتہ گزر گیا ایک دن مجھے گوالمنڈی لاہور میں گوگی بٹ نے اپنے گھر کھانے پر دعوت دی تو اسی وقت مجھے اس لڑکی کے ساتھ کیا ہوا وعدہ یاد آ گیا کہ اس لڑکی کے بتائے ہوئے ۓ پتے کے مطابق اس لڑکی کا گھر بھی گوالمنڈی میں ہی ہے ۔چنانچہ دوسرے دن میں گوگی بٹ کی دعوت سے جلدی فارغ ہوا تو لڑکی کے گھر کی تلاش شروع کرتا ہوا میں ایک ہندوؤں کے زمانے کی کٹٹری میں چلا گیا اور ایک شخص سے لڑکی کے بھائی کا نام لیکر ان کا پتہ پوچھا تو اس شخص نے مجھے بڑے غور اور خوف سے سر سے لیکر پاؤ ں تک ایک ہی نظر میں میرا ایکسرے اتار لیا اور بغیر بولے ہاتھ کے اشارے سے لڑ کی کے گھر کی طرف جانے کو کہا میں نے گھر کی گھنٹی پر ہاتھ رکھا تو ایک خوبصورت شکل جواں لڑکا باہر نکلا اور گھر کے دروازے میں ہی کھڑے ہو کر کہنے لگا جی کن سے ملنا ہے۔ میں نے کہا میں یہاں نہیں گھر کے اندر بیٹھ کر بات کرنا چاہتا ہوں لڑکے نے میری بات سن کر فوری مجھے اندر بلوا لیا اور خود دوسرے کمرے میں جا کر کسی کو میرے آنے کی اطلاع دینے لگ گیا ۔ تقریباً دس منٹ بعد ہی وہی لڑکی ہانپتی ہوئی گھر داخل ہوئی اور مجھ پر نظر پڑھتے ہی دونوں ہاتھوں سے اپنے دوپٹّے کو سنبھالتے ہوئے میرے سامنے بیٹھ گئی ۔ اس لڑکی نے مجھے کہا کہ عارف صاحب میرے گھر میں آنے کا شکریہ لیکن ہمارے گھر کی کہانی کا آپ کو میرے ساتھ اوپر والی منزل پر جا کر خود ہی اندازہ ہو جائے گا جہاں میری چھوٹی بہن رہتی ہے جس سے میں آپ کی ملاقات کروانا چاہتی ہوں لہٰذا اب آپ کو میرے ساتھ اوپر والی منزل پر جانا ہو گا پہلے میں نے تھوڑا سوچا پھر اس لڑکی کے پیچھے گھر کی اوپر والی منزل کی جانب سڑھیوں کے راستے چلتا گیا۔
جیسے ہی اس لڑکی نے کمرے کے باہر ہی سے اپنی بہن کو آواز دی تو اس دوران کمرے کے دونوں دروازے زور زور سے ہلنا شروع ہو گئے جس سے میں نے اندازہ لگایا شائد دوسری جانب سے آنے والی ہوا کا پریشر ہے۔ میں نے دروازے کے اندر دیکھنے کی کوشش کی تو دونوں دروازے یک دم بار ی باری میرے منہ پر ٹکرانا شروع ہو گئے جیسے کوئی میرے اوپر حملہ آور ہو رہا ہواور کمرے کے اندر سے کسی نے اپنی غراٹے دار آواز سے مجھے کمرے کے اندر آنے سے منع کردیا ۔ میرے ساتھ اوپر آنے والی لڑکی یہ کہتے ہوئے ’’وہ ابھی کمرے میں ہے‘ وہ ابھی کمرے میں ہے‘‘ نہ جانے اب کیا ہو گا ؟ اللہ مدد کر‘ اللہ مدد کر اور سیڑھیوں سے نیچے بھاگ گئی۔ اس کے پیچھے پیچھے میں بھی حیرانگی سے واپس ڈرائنگ روم میں آگیا۔ کچھ دیر حیران اور گم سم بیٹھنے کے بعد میں نے اس لڑکی سے اس کے گھر میں ہونے والے ڈرامے کے بارے جاننے کی کوشش کی مگر اس لڑکی نے مجھے انگلی کے اشارے سے خاموش رہنے کو کہا اور گھر سے باہر کھلی جگہ جانے کا اصرار کرنے لگی۔ (جاری ہے)

شیئر کریں

:مزید خبریں