آج کی تاریخ

زکریا یونیورسٹی میں میرٹ کی دھجیاں، تجربے میں ہیر پھیر سے نااہل امیدوار کو پروفیسر بنا دیا

ملتان (سٹاف رپورٹر) بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں پروفیسر اور ایسوسی ایٹ پروفیسرز حضرات کے تجربے سے متعلق ڈائیریکٹر کوالٹی ایشورنس کی نا اہلی کے باعث سکروٹنی پر مختلف سوالات اٹھنا شروع ہو گئے ہیں اور اب مختلف تعلیمی حلقوں کی جانب سے یہ بات برملا کی جارہی ہے کہ ڈائریکٹر کوالٹی ایشورنس کی جانب سے اس طرح کی سکروٹنی کے بعد ڈائیریکٹر کوالٹی ایشورنس کی اپنی سکروٹنی ہونا از حد ضروری ہے۔ سلیکشن بورڈ کے اشتہار نمبر Admin.1/03-2020 مورخہ 19-02-2020، جس کی آخری تاریخ 01-06-2020 تھی میں امیدوار طاہر اشرف کے پروفائل میں ڈائیریکٹر کوالٹی ایشورنس کی جانب سے تجربہ 11 سال، 2 ماہ اور 22 دن بتایا گیا ہے۔ جبکہ، ایک سال بعد، اشتہار نمبر Admin.06/2021/3329 مورخہ 26-03-2021 کے جواب میں ڈاکٹر طاہر اشرف کا تجربہ 16 سال، 4 ماہ اور 27 دن ظاہر کیا گیا۔ جو کہ بد ترین پرفارمینس کی واضح مثال ہے۔ چنانچہ بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے ایسوسی ایٹ پروفیسر اور سابقہ چیئرمین ڈاکٹر طاہر اشرف، جن کا مطلوبہ تجربہ 15 سال پورا نہ ہونے کے باوجود اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کی ہدایات کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے صرف نوازنے کی خاطر ان کے تجربے کو پورا کرتے ہوئے پروفیسر کے عہدے کے لیے eligible کر دیا۔ اور سکروٹنی کمیٹی کے منٹس میں بھی غلط تجربہ شمار کر لیا گیا۔مزید برآں، ان کی (scrutiny) سے متعلق منٹس HEC کی ہدایات اور بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی کی سنڈیکیٹ کی فیصلوں کے مطابق ریکارڈ نہیں کیے گئے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے خط نمبر 1-3-AD-QA/HEC/NQAC-20/2015/386 مورخہ 8 جولائی 2015 میں HEIs/DAIs میں فیکلٹی ممبران کی تعیناتی کے لیے کم از کم اہلیت کا معیار درج ہے، جس میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ پی ایچ ڈی پروگرام (زیادہ سے زیادہ 4 سال) اور پوسٹ ڈاک پروگرام کا دورانیہ تحقیقی تجربے میں شمار کیا جائے گا۔ فیکلٹی ممبران کی تقرری کے لیے تعلیمی قابلیت کے معیار میں اضافہ سے متعلق ایک اور نوٹیفکیشن، جو کہ کمیٹی کے فیصلے کی روشنی میں خط نمبر DG-QA/HEC/FAC(50)2012/212 مورخہ 20 اپریل 2012 کے مطابق پاکستان کی جامعات اور DAIs میں لیکچرر کی تعیناتی کے لیے کم از کم تعلیمی قابلیت M.Phil/MS یا مساوی ڈگری (18 سالہ تعلیم) یا غیر ملکی یونیورسٹی سے ماسٹرز ڈگری ہونی چاہیے، اور اس کا اطلاق یکم جنوری 2015 سے ہوگا۔ مزید برآں، بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی کی سنڈیکیٹ نے مورخہ 25 مارچ 2023 کو منعقدہ اجلاس میں ایم فل / ایم ایس ڈگری رکھنے والے فیکلٹی ممبران کے تحقیقی تجربے کو ایسوسی ایٹ پروفیسر اور پروفیسر کے عہدوں کے لیے شمار کرنے کے معاملے پر وضاحت ریگولیٹری اتھارٹی ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی بجائے قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد، پنجاب یونیورسٹی لاہور اور اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے طلب کرنے کی سفارش کی جو کہ جنوری 2015 کے بعد ایم فل کے ان دو سالہ تحقیقی تجربات کو پروفیسر اور ایسوسی ایٹ کے لیے شمار کرتے ہیں یا نہیں؟ اگر وہ اس تجربے کو شمار کرتے ہیں تو بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی میں بھی شمار کیا جائے گا، بصورتِ دیگر نہیں۔ مگر ابھی تک BZU کی سنڈیکیٹ نے اس تجربے کو شامل نہیں کیا۔ HEC نے اپنے خط میں 2015 سے قبل کے کیسز کے بارے میں کوئی واضح ہدایت نہیں دی۔ چنانچہ ایم فل کے تحقیقی تجربے کو شامل کرنا HEC کی ہدایات کی خلاف ورزی ہے، اور میرٹ پر مبنی اصولوں پر سوال اٹھاتا ہے۔ اس طرح، ڈاکٹر طاہر اشرف کا حقیقی تجربہ صرف 14 سال، 4 ماہ اور 27 دن بنتا ہے۔ بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی جو کہ بد انتظامی کے باعث پہلے ہی بد ترین زوال کا شکار ہے میں قواعد و ضوابط کی خلاف ورزیوں کی بدنامی کا شکار بنتی جا رہی ہے۔ واضح رہے کہ ڈین آف آرٹس اینڈ سوشل سائنسز کی جانب سے ڈاکٹر طاہر اشرف کو پروفیسر کی پوزیشن کے لیے نا اہل قرار دیے جانے کے بعد دوبارہ سیٹ مشتہر کرنے کی سفارش بھی کی جا چکی ہے۔ اور اب اساتذہ تنظیموں کے پریشر میں آنے والے وائس چانسلر ڈاکٹر زبیر اقبال غوری اور ڈائیریکٹر کوالٹی ایشورنس ڈاکٹر محمد فاروق کی جانب سے ڈاکٹر طاہر اشرف کا کیس دوبارہ سکروٹنی کے لیے بھیج دیا گیا ہے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں