ان دنوں سوشل میڈیا پر ایک سابق بیورو کریٹ کے انٹرویو پر مشتمل ایک کلپ بہت وائرل ہے جس میں انہوں نے بتایا کہ رحیم یار خان اور بہاولپور کے صحرا میں جو خلیجی ممالک سے مہمان شکار کے لئے آتے ہیں ان کی کس کس’’ نوعیت‘‘ کی تواضع کی جاتی ہے۔ انہوں نے تو تواضع کے ’’ لوازمات‘‘ بھی کھلے الفاظ میں بیان کر دیئے مگر یہ “بزدل” قلمکار ان الفاظ کو ضبط تحریر میں نہیں لا سکتا مگر اتنا ضرور جانتا ہے کہ ان ’’ لوازمات‘‘ کے عوض جو تحفے تحائف ہمارے ارباب اختیار کو ملتے ہیں ان کا ریکارڈ آجکل کسی توشہ خانہ میں کسی بھی اندراج میں نہ آ سکا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک سابق وزیراعلیٰ تلور کے شکار پر آئے خلیجی ممالک کے شہزادگان سے ملنے گئے، انہیں پروٹوکول کے آداب سے مکمل آشنائی نہ تھی لہٰذا راستے میں تھوڑا لیٹ ہو گئے اور پھر اپنا کروفر دکھانے کے لئے بہاولپور ڈویژن کے انتظامیہ اور پولیس کے افسران کو بھی ساتھ لے گئے۔ قافلہ وقت پر نہ پہنچ سکا تو دوپہر کا کھانا کھا کر تمام خلیجی مہمان صحرا میں لگے ایئر کنڈیشنر ٹینٹوں میں قیلولہ کرنے لگے اور ان کی نیند طویل ہو گئی جو نماز عصر تک جاری رہی۔ اب وزیراعلیٰ اور ان کا ساراعملہ تپتے صحرا میں گاڑیوں میں ملاقات کا منتظر رہا حتیٰ کہ ان کی گاڑیوں کو خیمہ بستی کی حدود میں بھی داخل نہ ہونے دیا گیا۔ خلیجی مہمان بیدار ہوئے اور فریش ہوئے تو قافلے کو خیمہ بستی میں گاڑیاں داخل کرنے کی اجازت ملی۔ پھر وزیراعلیٰ نے روائتی مہمان نوازی کا اظہار کرتے ہوئے ترجمان کے ذریعے پوچھا کہ خدمت میں کوئی کمی تو نہیں رہی۔’’ مہمانوں‘‘ کی تواضع پر تکلف ہائی ٹی سے کی گئی اور نصف گھنٹے بعد اپنی ہی ریاست اور اپنی ہی حکومت میں واقع مذکورہ خیمہ بستی میں داخل ہونے والے ان اپنی ہی سرزمین پر ’’ مہمانوں‘‘ کو ملاقات کے بعد خلیجی میزبانوں نے تحفے تحائف دے کر رخصت کر دیا۔ وزیراعلیٰ کو ملنے والے’’ لفافے‘‘ خاصے بھاری بھی تھے اور تعداد میں بھی بہت زیادہ تھے جبکہ عملے کے ہر رکن کو بھی چھوٹے لفافے ملے۔ ان میں سے تحصیل سطح کے ایک محکمے کے سربراہ کو جو لفافہ ملا اس میں ایک گھڑی تھی جو کہ آج سے 20سے25 سال قبل بھی دو لاکھ سے زائد کی تھی۔ حکومت پاکستان کی طرف سے چولستان، روجھان، سندھ اور بلوچستان کے بھی بعض علاقے خلیجی شہزادگان کو تلور کے علاوہ مختلف اقسام کے شکار کے لئے کئی دہائیوں سے گفٹ کئے گئے ہیں اور تکلیف دہ امر یہ ہے کہ ان علاقوں کے مکینوں کے لئے بھی مذکورہ علاقوں میں جانے کی ممانعت ہے۔کہتے ہیں کہ دنیائے بادشاہت میں ذہین ترین حکمرانوں کی صف میں شمار کئے جانے والے شیخ زید بن سلطان مرحوم نے بھارتی سابق وزیراعظم اندرا گاندھی کو خط لکھا کہ چولستان سے ملحقہ بھارتی علاقے راجستھان میں بھی انہیں شکار کی غرض سے کیمپ لگانے کی اجازت دی جائے اور وہ اس سہولت کے لئے قیمت ادا کرنے کو بھی تیار ہیں۔ سابق بھارتی وزیراعظم نے اس خط کو سفارتی آداب کے منافی قرار دے کر نہ صرف مسترد کر دیا بلکہ جواب میں خط لکھا کہ بھارت منہ مانگی رقم دیتا ہے کیا آپ بھارت کی خواہش کے مطابق اپنی ریاست کے کچھ علاقے ہمیں لیز پر دیں گے اور پھر کہنے والے تو یہاں تک کہتے ہیں کہ بھارتی حکومت کی ناراضگی پر سفارتی اطوار کے مطابق معذرت کی گئی حالانکہ تب بہت سے بھارتی شہری خلیجی ریاستوں میں ملازمتیں بھی کرتے تھے مگر شاید نظریہ اواگان یعنی (بار بار دنیا میں جنم لے کر واپس آنا) پر یقین رکھنے والی اندرا گاندھی کو بھی علم تھا کہ ریاست ماں ہوتی ہے تو حکمران کے طور پر وہ بھی ریاست کی ماں ہی ہیں۔ کاش یہ بات عارضی زندگی اور پھر ایک ہی مرتبہ دنیا میں آنے کے مبنی برحق حکم ربی پر ایمان رکھنے والے پاکستانی حکمران یہ سب مانتے اور جانتے ہوئے بھی سمجھ سکیں۔ نہ جانے ہمارے حکمران اس پر یقین کیوں نہیں رکھتے کہ یہ دنیاوی زندگی اور اس کا سب کچھ انتہائی عارضی اور ناقابل واپسی ہے۔
